مریخ مشن: بیک وقت تین خلائی مشن مریخ پر کیوں پہنچ رہے ہیں؟

مریخ مشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

متحدہ عرب امارات آج اپنے خلائی پروگرام کے حوالے سے ایک انتہائی تاریخی کامیابی کا جشن منا رہا ہے۔

اب سے کچھ دیر قبل متحدہ عرب امارات کی مریخ کی جانب جانے والی پہلی سیٹلائٹ جس کا نام ہوپ یعنی امید رکھا گیا ہے، سیارے کے مدار میں داخل ہو چکی ہے۔

مریخ پر متحدہ عرب امارات کا تاریخی پہلا مشن گذشتہ سال جولائی میں جاپان سے روانہ ہوا تھا۔ مدار میں داخل ہونے کے لیے اس سیٹلائٹ کو شدید بریک لگانی پڑی تاکہ وہ مریخ کی کشش ثقل کی گرفت میں آ جائے۔

اب اس کی مدد سے متحدہ عرب امارات کے سائنسدان تحقیق میں سرخ سیارے کی فضا کو جانچیں گے جو کہ مریخ کے کسی سابقہ ​​مشن نے نہیں کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مریخ مشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس طرح متحدہ عرب امارات مریخ پر کامیابی سے مدار میں خلائی تحقیقی آلات بھیجنے والا پانچواں ملک ہے۔ اس سے قبل یہ کام امریکہ، روس، یورپی یونین اور انڈیا کر چکے ہیں۔ تاہم چین (جو کہ مدار میں ہی نہیں رہا) اور امریکی مشنوں کے برعکس ہوپ مریخ پر نہیں اترے گی، لیکن کم از کم ایک مریخ سال یا 687 دن کے لیے سیارے کا چکر لگائے گی۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس سے ہماری سمجھ میں اضافہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح مریخ نے اپنی زیادہ تر ہوا کھو دی اور اس کے ساتھ اس کا پانی بھی ختم ہو گیا۔

توقع ہے کہ ستمبر میں اس کی مدد سے حاصل کی گئی معلومات زمین تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے اور یہ اپریل تک جاری رہے گا۔

Please check distribution email for instructions on how to reversion graphic

بی بی سی سائنس کے نمائندے جوناتھن آموس نے ہوپ کے مشن کو سائنسی کوشش سے کہیں زیادہ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا ’اس مشن کو حوصلہ افزائی کا مشن سمجھا جاتا ہے۔۔ یہ ایسی چیز ہے جو امارات اور عرب خطے کے نوجوانوں کو اس طرح کے علوم حاصل کرنے کے لیے راغب کرے گی۔

خلائی مشن ’ہوپ‘ متحدہ عرب امارات کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر مریخ کے مدار میں داخل ہوا ہے۔

رات کے وقت متحدہ عرب امارات سرخ رنگ کی روشنی میں نہا چکا تھا، سرکاری اکاؤنٹس #ArabstoMars ہیش ٹیگ سے ٹویٹ کر رہے ہیں اور اس بڑے دن دبئی کا برج خلیفہ، دنیا کا سب سے بلند ٹاور، پر ایک جشن کا سماں ہے۔

Presentational grey line

چین کا تیان وین -1

Tianwen Mars rover

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین کا پہلا مریخ ایکسپلوریشن مشن جس کا ترجمہ ’جنت سے سوالات‘ ہے، در حقیقت مزید تین ماہ تک لینڈنگ نہیں کرے گا۔

انجینئر لینڈنگ سے قبل سیارے پر موجود ماحول کی صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے۔

مریخ پر اترنے کے لیے سائنس دانوں کو 20،000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو کم کرنے کے چیلنج سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

چین کو امید ہے کہ 240 کلو گرام وزنی یہ روور مئی میں مریخ کے یوٹوپیا نامی میدان پر اترے گا۔ یہ روور، فولڈ آؤٹ سولر پینلز کے ذریعے تیار کردہ سطح کے بالکل نیچے والے علاقے کی ارضیات کا مطالعہ کرے گا۔ اس پر نصب آلات مقامی چٹانوں میں معدنیات کا اندازہ کرنے اور پانی یا برف تلاش کرنے میں مدد کریں گے۔

چینی سائنس دان روبوٹ سے کم از کم 90 دن کی خدمت حاصل کرنا چاہیں گے۔ ابھی تک صرف امریکی ہی مریخ پر طویل عرصے تک آپریشن چلانے میں کامیاب ہوسکے ہیں (سوویت یونین کا مریخ ۔3 اور یورپ کے بیگل ٹو مشن پہنچے تو تھے لیکن کچھ ہی دیر بعد ناکام ہوگئے تھے)۔

ٹیان وین -1 نے پہلے ہی مریخ کی پہلی تصویر کو زمین پر بھیج دیا ہے: مریخ کی سطح پر وادیوں کے ایک وسیع علاقے کی اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں شیپیریلی کریٹر اور ویلس مارینیس جیسی ارضیاتی خصوصیات کو دکھایا گیا ہے۔

اس تصویر کو مریخ سے 2.2 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے لیا گیا تھا۔

The first image of Mars taken by China's Tianwen-1 unmanned probe is seen in this handout image released by China National Space Administration (CNSA) February 5, 2021.

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنتیان وین -1 خلائی جہاز کے ذریعہ مریخ کی ایک تصویر

تیان وین -1 مریخ پر پہنچنے کے لیے چین کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ روس کے ساتھ 2011 میں پچھلا مشن وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا تھا جب اسے لانچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

لیکن چاند پر دو روور بھیجنے کے بعد ملک پراعتماد ہے۔ دوسرے ہی سال میں چین کامیاب لینڈنگ کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔

Presentational grey line

یو ایس پریزروینس مشن

An undated handout picture made available by the National Aeronautics and Space Administration (NASA)'s Jet Propulsion Laboratory (JPL) in Southern California, USA shows an illustration of NASA"s Perseverance rover landing safely on Mars (issued 08 February 2021).

،تصویر کا ذریعہEPA/Nasa/JPL-Caltech

ناسا کی پرسویرینس مریخ پر ماضی میں ممکنہ زندگی کے ثبوت تلاش کرے گی۔ یہ چٹانوں کے نمونے اکٹھا کرے گی جو اس بارے میں انمول سراغ دے سکیں گے کہ آیا سرخ سیارے میں کبھی زندگی تھی۔

کسی دوسرے سیارے پر لینڈ کرنے کے لیے اب تک بھیجی جانے والی سب سے بڑی اور جدید ترین خلائی گاڑی جمعرات 18 فروری کو 2100 GMT سے قبل مریخ کی سطح چھونے کی امید کر رہی ہے۔

انجینئر ایلن چن نے جو پرسویرینس کے لیے انٹری اور لینڈنگ (ای ڈی ایل) کوشش کی رہنمائی کر رہے ہیں بی بی سی نیوز کو بتایا ’ہر طرف خطرہ ہے۔ یہاں 60 سے 80 میٹر لمبا پہاڑ ہے جو ہماری لینڈنگ سائٹ کے بیچ آتا ہے۔ اگر آپ مغرب کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی اتنے کھڈے موجود ہیں کہ اگر ہم کامیابی کے ساتھ اترتے تو روور باہر نہیں نکل سکتا۔ اور اگر آپ مشرق کی طرف دیکھیں تو یہاں اتنی بڑی چٹانیں ہیں کہ ہمارا روور اس سے بہت ناخوش ہوگا۔‘

Perseverance rover

،تصویر کا ذریعہNASA / JPL-Caltech

خوش قسمتی سے پرسویرینس کے پاس کچھ آزمائشی اور آزمائشی ٹیکنالوجیز ہیں جن کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ سطح پر محفوظ مقام تک پہنچ جائے۔

روور کا سائز ایک چھوٹی سی ایس یو وی کی طرح ہے اور اس کا وزن ایک میٹرک ٹن ہے۔

یہ گاڑی خودمختاری سے 200 میٹر فی دن حرکت میں آسکتی ہے اور یہ 19 کیمرے اور دو مائیکروفون سے لیس ہے جس کے ساتھ سائنس دانوں کو امید ہے کہ وہ مریخ پر پہلی آوازیں ریکارڈ کریں گے۔

یہ مشن پہلی بار 1.8 کلو وزنی ڈرون کسی دوسری دنیا پر اڑانے کی کوشش کرے گا۔

ان سب وعدوں کے باوجود ہم صرف اس وقت ہی پپرسویرینس کی دریافتوں کے بارے میں جان پائیں گے جب لال سیارے پر جمع کردہ نمونے دوبارہ زمین پر آئیں گے۔ اور یہ مشن ختم ہونے کے بعد ہوگا۔۔۔ یعنی آج سے دو سال بعد۔