انڈیا میں ہاتھیوں کی گنتی جاری

،تصویر کا ذریعہRAMAN SUKUMAR
بات اگر انسانوں کی گنتی کی ہو اور کسی مقررہ مقام پر جا کر ان تفصیلات درج کرنا ہو تو یہ عمل پھر بھی آسان ہے لیکن کسی ایسے جانور کی گنتی کرنا، جو ایک گھنٹے میں 24 کلومیٹر تک سفر کرتا ہو اور اپنا ٹھکانہ تبدیل کر سکتا ہو، کتنا مشکل ہوتا ہوگا؟
یہ ذکر ہے جنگل کے سب سے بڑے جانور ہاتھی کا، جس کی آبادی کا اندازہ کرنے کے لیے ان دنوں انڈین جنگلات میں مہم جاری ہے۔
انڈیا میں جہاں مردم شماری ہر دس سال میں کی جاتی ہے وہیں ہاتھیوں کی گنتی ہر پانچ سال بعد ہوتی ہے۔
انڈیا میں ہاتھیوں پر تحقیق کرنے والے بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے پروفیسر رمن سكمار نے صحافی عمران قریشی کو بتایا کہ یہ گنتی مردم شماری سے مختلف ہے کیونکہ یہ آبادی کا اندازہ لگانے کا عمل ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAMAN SUKUMAR
انھوں نے کہا، 'بنیادی طور پر، ہاتھیوں کی گنتی کے لیے اس سال چار مختلف طریقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سال پہلی بار گنتی کے لیے ایک 'بالواسطہ طریقہ''بھی اپنایا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ پانچ سال پہلے کچھ جنوبی ریاستوں میں آزمایا گیا تھا لیکن اس بار اسی طریقے سے پورے ملک میں ہاتھیوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔'
پہلا طریقہ
تمام ریاستی حکومتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل نقشے تیار کریں، تاکہ جنگلوں اور ان سے باہر موجود ہاتھیوں کی تعداد کو درج کرنا آسان ہو جائے۔ کن باغات میں ہاتھی موجود تھے اور کہاں کہاں انھوں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا، اس سے بھی ہاتھیوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے گا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
مجموعی طور پر کوشش یہ ہے کہ ہاتھیوں کی موجودگی کو جيوگرافكل انفارمیشن نظام پر بھی لایا جا سکے۔
دوسرا طریقہ
یہ ایک روایتی طریقہ ہے. اس کے تحت، دو یا تین لوگوں کی ایک ٹیم بنائی جاتی ہے اور انھیں پانچ مربع کلومیٹر کا علاقے دے دیا جاتا ہے۔
یہ ٹیمیں ہاتھیوں کی عمر اور جنس کا ریکارڈ تیار کرتی ہیں اور ان کی تصاویر بھی کھینچتی ہیں۔
ہاتھیوں کی عمر کا اندازہ ان کی اونچائی سے لگایا جاتا ہے. عموما بالغ ہاتھی کی اونچائی آٹھ فٹ اور ہتھنی کی اونچائی سات فٹ ہوتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAMAN SUKUMAR
تیسرا طریقہ
یہ گنتی کا بالواسطہ طریقہ ہے۔ اس طریقے میں توجہ ہاتھی کے ليد پر ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایک ہاتھی ایک دن میں پندرہ مرتبہ ليد کرتا ہے۔
اس کے ذریعہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہاتھیوں کی حرکت اور ان کی صحت کیسی ہے۔
پروفیسر سكمار کے مطابق، ہاتھیوں کی تعداد کا اندازہ کرنے کا یہ سادہ ریاضیاتی فارمولا ہے اور اس طریقہ سے گذشتہ تین ماہ میں ہاتھیوں کی آبادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
چوتھا طریقہ
اس طریقے میں بھی دو یا تین افراد پر مشتمل ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ ان ٹیموں کو پانی کے ذرائع کے قریب صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک تعینات کیا جاتا ہے اور وہاں آنے والے ہاتھیوں کی عمر اور جنس کا ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہRAMAN SUKUMAR
اس طریقے کے بارے میں پروفیسر سكمار کہتے ہیں۔ 'ہمارے لیے اصل تعداد حاصل کرنا اہم نہیں ہوتا۔ ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد کی گنتی میں اعداد و شمار آگے پیچھے ہو سکتے ہیں اور ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ اہم چیز ہاتھیوں کی صحت کی تفصیلات لینا اور یہ معلوم کرنا ہے کہ جنگلوں میں کتنے نر اور مادہ ہاتھی ہیں۔'
عام طور پر، ایک علاقے میں ہاتھیوں اور ہتھنیوں کی تعداد تقریباً برابر رہتی ہے لیکن عمر بڑھنے پر ان کا تناسب ایک مرد پر دو یا تین مادہ تک ہو جاتا ہے کیونکہ معمر ہاتھیوں کی ہلاکت کی شرح ہتھنیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
سنہ 2012 میں، بھارت میں ہاتھیوں کی آبادی 29،391 سے 30،711 کے درمیان تھی جبکہ سال 2007 میں یہ تعداد 27،657 سے 27،682 تک تھی۔
انڈیا میں ہاتھی شماری کا عمل رواں برس کے آغاز سے جاری ہے اور جہاں مارچ کے آخر تک شمال مشرقی ریاستوں میں ہاتھیوں کی آبادی کا اندازہ کیا جا چکا تھا وہیں دو ہفتے پہلے اڑیسہ، جھارکھنڈ اور مشرقی ریاستوں میں یہ عمل مکمل ہوا ہے۔ اس کے بعد گذشتہ ہفتے تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ اور آندھرا پردیش میں یہ گنتی کی گئی اور آئندہ ہفتے یہ مہم اتراکھنڈ میں شروع ہو گی۔








