|
’مجھے یہ بات منطقی لگتی ہے‘ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
امریکی صدر بش نے ایک مرتبہ پھر امریکیوں کی نجی کالیں سننے اور ای میلیں پڑھے جانے کی اجازت دینے کا دفاع کیا ہے۔ وہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو اندرون ملک ان لوگوں کے نجی ٹیلی فون سننے اور ای میل چیک کرنے کی اجازت دی تھی جن پر دہشت گردوں سے رابطے کا شبہ ہو۔ انہوں نے ان خفیہ سرگرمیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ حالت جنگ میں ہے اور بطور کمانڈر انچیف ان کا یہ فرض ہے کہ وہ امریکی عوام کے تحفظ کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ انہوں نے کہا ’مجھے یہ بات منطقی لگتی ہے کہ جب ہمیں معلوم ہو کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی ٹیلی فون نمبر سے امریکہ میں کسی شخص کو فون کیا جائے تو ہم یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا ہے‘۔ صدر بش نے اپنے اعتراف میں کہا تھا کہ انہوں نے گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے بعد ذاتی طور پر ایک ایسے پروگرام کی منظوری دی تھی جس کے ذریعے بین الاقوامی نجی ٹیلی فون کالز سنی اور ای میلز امریکہ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور تنظیموں کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ صدر بش کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے ذریعے کئی امریکی جانیں بچائی بھی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس پروگرام کو بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ | اسی بارے میں پیٹریاٹ ایکٹ پر صدربش کی ہزیمت23 December, 2005 | آس پاس پرائیویٹ کالز کی جاسوسی کا اعتراف 18 December, 2005 | آس پاس امریکہ: جاسوسی کی اجازت پرطوفان 16 December, 2005 | صفحۂ اول بش کی جیوری میں حاضری ملتوی03 December, 2005 | آس پاس بش کتاب میں رہیں گے، نصاب میں نہیں 05 December, 2005 | پاکستان ناقص انٹیلیجنس پر بش کا اعتراف14 December, 2005 | آس پاس بش کا مستقبل جنگ سے وابستہ15 December, 2005 | آس پاس | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||