BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Thursday, 15 December, 2005, 16:00 GMT 21:00 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
بش کا مستقبل جنگ سے وابستہ
 

 
 
صدر بش
صدر بش امریکہ میں عراق جنگ کو مثبت انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں
امریکہ میں زیادہ تر لوگ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ صدر بش کے اقتدار کی مدت کا انحصار عراقی جنگ کے نتائج پر ہے۔

اس جنگ اب تک دو ہزار سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ مالی لحاظ سے امریکہ کے ٹیکس گزاروں کے پیسوں سے اس جنگ پر اب تک دو سو ارب امریکی ڈالر سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں۔

صدر بش کو سیاسی طور پر بھی عراق جنگ کی قیمت چکانا پڑی ہے۔ ان کی پسندیدگی کی شرح اب چالیس فیصد ہے جو ان کے دور کے آغاز کی نسبت چھ فیصد کم ہے۔

اگرچہ گذشتہ ماہ میں ان کی حمایت میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ بہتری اتنی نہیں ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ برا وقت گزر گیا ہے۔

یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس حکومت کی خارجہ پالیسی جمہوریت کے فروغ کے اصول پر مبنی ہے۔ اس لیے عراق کو مشرق وسطیٰ کے لیے جمہوریت کی مثال بننا ہے، لیکن اگر عراق میں جمہوریت جڑ نہ پکڑ سکی تو سارے ارادے پر پانی پھر جائے گا۔

عراقی فوجی
عراقی فوج ابھی تک مناسب متبادل نہیں بن سکی

اس لیے صدر بش کا اس مسئلے پر بہت زیادہ وقت اور توجہ صرف کرنا حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے صدر بش اس جنگ کے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اس میں ’مکمل فتح‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

صدر بش کی خواہش ہے کہ عراق کے حالیہ الیکشن اس کامیابی اور عراق کی ترقی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوں۔ ان کے مشیر اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر اور لوگوں کی زیادہ شمولیت کے خواہاں ہیں۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ارادے بہت بلند نہیں ہیں اور یہ الیکشن صدر بش کی کامیابی یا ناکامی کا حتمی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ پہلے الیکشن اور آئین پر رائے شماری کی طرح ان انتخابات کو بھی امریکی عوام کے سامنے بہتری کے آثار کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

صدر بش نے امریکہ کی مثال دیتے ہوئے بار بار اس دلیل پر زور دیا ہے کہ جمہوریت راتوں رات فروغ نہیں پاتی۔ لیکن ان کے اپنے الفاظ میں الیکشن ایسی قوم کی تعمیر میں بہت اہم ہیں جو اپنی مدد آپ کرسکے اور اپنا دفاع کر سکے۔

لیکن ان انتخابات سے صدر بش کی خواہش کے مطابق ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں ہو سکے گی جس کا وہ وعدہ کر رہے ہیں۔ اسی لیے دانستہ طور پر ان الفاظ کی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ فتح سے کیا مراد ہے؟

صدر بش نے ایک وسیع اور مبہم مقصد کو سامنے رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فتح اس وقت حاصل ہو گی جب دہشت گرد اور صدام کے حامی عراق کی جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں رہیں گے۔

صدر جارج بش
عراقی جنگ نے صدر بش کی مقبولیت پر برا اثر ڈالا ہے

وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تشدد کافی سالوں تک جاری رہے گا۔ لیکن ان انتخابات سے امریکی عوام کو بہتری کی امید دکھائی جا سکے گی۔

صدر بش امریکی فوج کی واپسی کا وقت متعین کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے دہشت گردوں کو غلط اشارے ملیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ لیکن انہیں پتہ ہے کہ امریکی عوام کا صبر محدود ہے۔

اگر یہ الیکشن واقعی ترقی کی راہ کی جانب ایک قدم ہیں تو انہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اب عراقی عوام کا امریکی فوج پر انحصار کم ہو رہا ہے۔

ریپبلیکن پارٹی کے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ فوجیں اگلے سال کے درمیانی انتخابات سے پہلے نکالی جا سکتی ہیں تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حتمی فیصلہ عراق کے ہاتھ میں ہے۔

انہیں اب یہ ثابت کرنا ہو گا کہ امن اور سلامتی کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور صرف اسی صورت میں وہ اپنے صدر کی شہرت کو بچا سکتے ہیں۔

 
 
66اسے چھوڑ دیں
برطانوی شہری کی رہائی کے لیے اپیل
 
 
66’الجزیرہ پر حملہ‘
صدر بش الـجزیرہ پر حملہ چاہتے تھے: مرر
 
 
66مائیں نی میں کِنوں آکھاں
عراق میں بغیر عدالتی نظام کے قید، تشدد اور تضحیک
 
 
اسی بارے میں
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد