|
عراق: 34 ہلاک، متعدد زخمی | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عراق کے دارالحکومت بغداد میں جاری تشدد کے دوسرے دن جمعرات کو ہونے والے دھماکوں کے تازہ سلسلے میں چونتیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ بغداد کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ سب سے ہولناک حملہ جنوبي بغداد کےضلع الدورہ میں ایک کار بم دھماکے کے ذریعے پولیس کارواں پر کیا گیا جس میں بیس افراد ہلاک اور اکیس زخمی ہوئے جن میں پندرہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کار بم حملہ مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے اس وقت ہوا جب ایک خود کش حملہ آور نے پولیس کی گاڑیوں کے قافلے کے پاس خود کو بم سےاڑا لیا۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد ہی اسی علاقے میں دو بم دھماکوں ہوئے۔ جن کا نشانہ خصوصی فورسز کے اہلکار تھے۔ شمالی شہر کرکک میں ایک اور دھما کے میں دو مزید پولیس افسران ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ جمعرات کو ہونے والے بم دھماکوں کا نشانہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان تازہ حملوں کے بعد عراق کی حکومت نے عوام سے متحد رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان دھماکوں سے ایک دن قبل ضلع کاظمیہ بم دھماکوں میں ایک سو بیاسی افراد ہلاک اور چار سو کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر شعیہ مزدور افراد تھے۔ عراق کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک سو بیاسی اور زخمیوں کی چھ سو انہتر تک پہنچ گئی۔ تشدد کی اس لہر میں اضافہ اس وقت ہوا کہ جب ملک کا آئین اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا ہے۔
دو ہزار تین میں عراق پر اتحادی فوج کے قبضے کے بعد بدھ کو ہونے والے عراق میں ایک گروہ نےاپنا تعلق عسکریت پسند تنظیم القاعدہ سے کرتے ہوئے ایک اسلامی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے تلعفر میں جنگجوؤں کے خلاف امریکی اور عراقی فوج کی کارووائی کا جواب ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہونے والے ایک اور آڈیو ٹیپ میں القاعدہ کے رہنما ابو معصب الزرقاوی نے عراق میں شیعوؤں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ آئین کی تشکیل کے لیےکئی مہینوں سے چلنے والے مذاکرات کے بعد توقع ہے کہ پندرہ اکتوبر کو ہونے والے ریفرنڈم سے پہلے اس کی نقول عراقی عوام میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||