ریاض نائیکو کی ہلاکت: کیا انڈین کشمیر میں مسلح مزاحمت کا خاتمہ ہورہا ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جب سے انڈین افواج نے مسلح عسکریت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع کیا ہے، کسی بھی عسکریت پسندی کی کامیابی کا دارومدار فورسز کیے گئے حملے پر نہیں بلکہ بندوق اُٹھانے کے بعد زندہ رہنے کی مدت پر ہوتا ہے۔
اس حوالے سے 40 سالہ ریاض نائیکو پچھلے چند سالوں کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سب سے کامیاب مسلح کمانڈر گزرے ہیں کیونکہ وہ آٹھ سال سے فوج، پولیس اور نیم فوجی ایجنسیوں کو چکمہ دیتے ہوئے مسلح گروپ حزب المجاہدین کو منظم کرتے رہے۔
ان کی زندگی کا قصہ چھ مئی کی صبح ختم ہوا جب وہ اپنے ساتھی جُنید صحرائی کے ہمراہ اپنے آبائی گاوٴں بیگ پورہ اونتی پورہ میں فورسز کی ایک کارروائی میں مارے گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آٹھ گھنٹے کی طویل جھڑپ کے بعد نائیکو اور ان کے ساتھی کو ہلاک کیا گیا تاہم فورسز یا پولیس کو کوئی نقصان نہیں اُٹھانا پڑا۔
ریاض نائیکو اونتی پورہ کے اُسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے برہان وانی اور ذاکر موسیٰ سمیت حزب المجاہدین کے کئی کمانڈر اُبھرے اور جھڑپوں میں مارے گئے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’کم گو، اور پینٹنگ میں دلچسپی رکھنے والا ریاض نائیکو‘
قتل، اغوا اور فورسز پر حملوں کے کئی معاملوں میں نائیکو پولیس کو طویل عرصے سے مطلوب تھے لیکن اُن پر نمایاں الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے 30 سال سے کشمیر میں سرگرم حزب المجاہدین کو ازسرنو منظم کیا۔
سنہ 2008 میں حزب المجاہدین کی اہمیت زیادہ نہیں تھی لیکن حکومت کی طرف سے کشمیر میں سو ایکڑ زمین شری امرناتھ شرائن بورڈ کو عطیہ کرنے کے ردعمل میں علاقے میں ہمہ گیر عوامی احتجاج برپا ہوا۔
نائیکو کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اُس زمانے میں وہ کالج میں تھے اور ساتھ ہی ایک غیرسرکاری سکول میں ریاضی پڑھاتے تھے۔ اُن کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ ریاض بہت کم گو تھا۔
'جذباتی بھی تھا، لیکن دوستوں میں سے کسی کو کوئی خوامخواہ ستاتا تو وہ مشتعل ہوجاتا تھا۔ لیکن وہ مصوری کا شوقین تھا۔ سُرخ، سیاہ اور نیلےرنگوں سے کینوس پر عجیب شکلیں بناتا تھا، وہ سب میری سمجھ سے باہر تھا لیکن ریاض پینٹنگ میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔'
سنہ 2010 میں فرضی جھڑپوں میں عام شہریوں کو ہلاک کر کے اُنھیں پاکستانی عسکریت پسند قرار دیے جانے کے بعض واقعات کے بعد پھر ایک بار احتجاجی تحریک چھِڑ گئی تو اس تحریک کو دبانے کے لیے فورسز اور پولیس نے بے تحاشا طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں درجنوں نوجوان ہلاک ہوگئے۔
اسی دوران پولیس نے نائیکو کو گرفتار کرلیا۔ دو سال کی قید کے بعد اُنھیں جب رہا کیا گیا تو وہ گھر میں صرف تین ہفتوں تک رہنے کے بعد6 جون 2012 کو بھاگ کر روپوش ہوگئے۔
پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ 'سیکورٹی ایجنسیوں کو شبہ تھا کہ ریاض عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوگیا ہے، لیکن وہ نہایت محتاط تھا اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں خاصی مہارت رکھنے کے باوجود سوشل میڈیا سے دُور رہتا تھا۔'
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاض نائیکو نے ہی برہان وانی، ذاکر موسیٰ اور دوسرے نوجوانوں کو حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل کیا اور خود قیادت کا دعویٰ کرنے کی بجائے برہان وانی کو آگے کیا۔
سنہ 2016 میں جب برہانی وانی کی ایک جھڑپ میں ہلاکت ہوئی تو سیکورٹی ایجنسیوں کے اندیشوں اور عوامی قیاس کے برعکس ریاض نے سبزار احمد کو کمانڈر تسلیم کرلیا۔
سبزار کی بھی چند ماہ بعد ہلاکت کے بعد انھوں نے ذاکر موسیٰ کو کمانڈر بننے کاموقع دیا، لیکن تھوڑے عرصے بعد ذاکر موسیٰ نے القاعدہ اور داعش کے نظریات اپنا کر حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کرلی جسکے بعد نائیکو کو خود میدان میں کودنا پڑا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
داعش سے دُوری
ریاض نائیکو کے دوستوں اور پڑوسیوں اور اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے حزب المجاہدین کو انتہاپسند داعش کے اثر سے بچائے رکھا۔
دو سال قبل جب پولیس نے اُن کے والد اسداللہ نائیکو کو تھانے میں قید کرلیا تو نائیکو نے متعلقہ پولیس افسر کے گیارہ رشتہ داروں کو اغوا کرلیا ۔
اسدللہ کی رہائی کے فوراً بعد پولیس افسر کے رشتہ داروں کو کوئی گزند پہنچائے بغیر رہا کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے کئی ویڈیو پیغامات میں کہا کہ حزب المجاہدین کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ محض کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم ہے۔
وہ اکثر پولیس کو عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشنوں سے دُور رہنے کی تلقین کرتے تھے لیکن پولیس کاکہنا ہے کہ نائیکو کئی پولیس اہلکاروں اور غیرمقامی مزدوروں کے قتل میں براہِ راست ملوث تھے۔
پولیس اور فوج کے بعض افسروں کا خیال ہے کہ ریاض نائیکو کے طویل مدت تک زندہ رہنے کی وجہ اُن کا سوشل میڈیا سے دُور رہنا، کسی پہ بھروسہ نہ کرنا اور قیادت کے لیے اپنے سے کم عمر نوجوانوں کو موقع دینا ہے۔
ایک افسر نے بتایا: 'آاٹھ سال سے نائیکو کو ٹریک کیا گیا، اُس نے کئی مرتبہ محاصرہ توڑا اور فرار ہوگیا۔ لیکن بالاخر اس کا یہ طویل سفر وہیں ختم ہوگیا جہاں سے شروع ہوا تھا۔'
واضح رہے نائیکو اپنے ہی آبائی گاوٴں میں محصور ہوگئے تھے۔ اُن کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی فورسز نے پہلے گاؤں کے اِرد گرد دو دن تک خندقیں کھود دیں تاکہ مقامی لوگ نائیکو کو فرار ہونے میں مدد نہ کرسکیں۔
حزب المجاہدین کے آخری کمانڈر؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جس وقت ریاض نائیکو نے حزب کو ازسرنو منظم کرنے کا بیڑا اُٹھایا تو اُسوقت کشمیر کی سب سے پُرانی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کی مقبولیت کا گراف نیچے کی جانب تھا۔
حزب المجاہدین کشمیر کے بارےمیں الحاق پاکستان کا موقف رکھتی ہے اور 1990 کے عشرے میں کشمیر میں بڑی مسلح کارروائیاں کرچکی ہے۔
پاکستان میں مقیم محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین تنظیم کے سپریم کمانڈر ہیں۔ حزب المجاہدین کے ساتھ وابستہ نوجوانوں کی اکثریت جماعت اسلامی کے نظریات سے متاثر ہیں اور سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ اعلی کمانڈروں کی اکثریت دراصل ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو جماعت اسلامی کے حامی ہیں۔
جولائی 2000 میں سیز فائر کا اعلان کرکے حزب کے اُسوقت کے چیف کمانڈر عبدالمجید ڈار اور اُن کے ساتھی کمانڈروں نے حکومت انڈیا کے نمائندوں کے ساتھ سرینگر میں مذاکرات بھی کیے لیکن سیز فائر محض پندرہ روز بعد ختم ہوگیا اور مجید ڈار سمیت کئی کمانڈر پراسرار حالات میں مارے گئے۔
بعد میں اِنسان کُش بارودی سرنگوں پر پابندی کے لیے اقوام متحدہ کی مہم کے دوران حزب نے بھی بارودی سرنگوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد حزب المجاہدین بتدریج کمزور ہوتی گئی کیونکہ سیزفائر کے بعد اُس کے درجنوں کمانڈروں فوجی آپریشنوں میں مارے گئے تھے۔
جب ریاض نائیکو نے 2010 میں حزب المجاہدین کو از سرنو منظم کرنا شروع کیا تو حزب کا کوئی بھی سینئیر کمانڈر موجود نہ تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سید صلاح الدین نے نائیکو کی ہلاکت کے بعد جمعرات کو جاری کی گئے خصوصی ویڈیو پیغام میں ریاض نائیکو کو کشمیر کا محمد بن قاسم قرار دیا اور کہا کہ 'ایک ابن قاسم شہید ہوگیا تو ہزاروں ابن قاسم پیدا ہونگے۔'
پولیس کا کہنا ہے کہ فی الوقت انڈین کشمیر میں دو سو سے زیادہ عسکریت پسند سرگرم ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا نام سامنے نہیں آیا ہے جو نائیکو کا جانشین کہلایا جا سکے۔
کیا اس کا مطلب ہے کہ کشمیر میں مسلح تشدد کا خاتمہ ہوگیا؟ اس سوال کے جواب میں ایک پولیس افسر نے بتایا: 'حزب المجاہدین کی قیادت کی سبھی کڑیاں ہم ختم کرچکے ہیں۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ عسکریت پسندی ختم ہوگئی۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کشمیرمیں دہشت گردی کو سپانسر کرتا رہا ہے اور حزب بھی ماضی میں کئی دھچکوں کے باوجود دوبارہ اُبھرتی رہی ہے لیکن یہ درست ہے کہ کشمیر میں جو بھی عسکریت پسند موجود ہیں اُن کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور فوری طور اُن کے پاس کوئی نیا لیڈر نہیں ہے۔
نئی سیکورٹی پالیسی
چار سال قبل جب برہان وانی کو ایک جھڑپ میں ہلاک کیا گیا تھا تو سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ :میری بات یاد رکھیے۔۔۔اپنی قبر سے نوجوانوں کو تشدد پر مائل کرنے کی برہان کی صلاحیت اُس سے کئی گنا زیادہ ہوگی جو زندہ رہتے ہوئے تھی۔'
تاہم اس بار جب نائیکو کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تو عمرعبداللہ نے پھر ٹویٹ کیا: 'موت اُسی وقت ریاض نائیکو کا مقدر ہوگئی تھی جب اُس نے بندوق اُٹھاکر تشدد اور دہشت گردی کا راستہ اپنایا۔ اُس کی موت کو تشدد اور مزید ہلاکتوں کے جواز کے طور استعمال نہ کی جائے۔'
واضح رہے کشمیر کے علیحدگی پسند اور اکثر ہند نواز رہنما طویل عرصے سے کہتے رہے ہیں کہ پولیس اور فورسز کی طرف نوجوانوں کو اظہار رائے کا موقع نہ دینے سے عوام میں انتقامی جذبات بھڑکتے ہیں اور وہ 'تنگ آمد بجنگ ۔آمد' کے مصداق بندوق اُٹھاتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
برہان وانی اور ریاض نائیکو کی غیرمسلح زندگی کے حالات کا حوالہ دے کر اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ 'نوجوانوں کے لیے سبھی دروازے بند ہوجائیں تو وہ اپنی جان دے کر بدلہ لیتے ہیں۔'
قابل ذکر ہے گزشتہ کئی سال سے ہر معروف مسلح رہنما کی ہلاکت کے بعد بھاری تعداد میں لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوجاتے تھے اور بعد میں اُن ہی شرکا میں سے بعض روپوش ہوکر مسلح ہوجاتے تھے۔
حکومت نے حالیہ دنوں ایک نئی سیکورٹی پالیسی کا اعلان کیا جس میں بتایا گیا کہ تشدد کو گلوریفائی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس پالیسی کے تحت مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاش لواحقین کے سپرد نہیں کیا جاتی۔ اُنھیں آبائی قبرستان سے دُور لائن آف کنٹرول کے قریب دفن کیا جاتا ہے۔
اس پالیسی پر اس قدر شدت کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے کہ گذشتہ ہفتے ہندوارہ کے علاقے میں ایک حملےکے دورن تین نیم فوجی اہلکار مارے گئے تو ردعمل میں کی گئی فائرنگ میں ایک معذور نوجوان بھی مارا گیا۔
حالانکہ فورسز نے نوجوان کی ہلاکت کو حادثہ قرار دیا لیکن اس کے باوجود اُس نوجوان کی لاش لواحقین کے سپرد نہیں کی گئی۔
اسی پالیسی کے تحت ریاض نائیکو اور اُن کے ہمراہ ہلاک ہونے جُنید صحرائی کی لاشوں کو بھی لواحقین کے سپرد نہیں کیا گیا بلکہ پولیس کی نگرانی میں انھیں غیرمقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔









