حزب المجاہدین کے اہم کمانڈر ریاض نائیکو پلوامہ میں انڈین فوج سے جھڑپ میں ہلاک

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں پولیس ذرائع اور مقامی لوگوں کے مطابق مسلح تنظیم حزب المجاہدین کے مطلوب ترین کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ساتھی سمیت بدھ کی صبح ہونے والی ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
40 سالہ ریاض نائیکو حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر تھے اور انھیں 2016 میں مارے جانے والے کمانڈر برہان وانی کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہی کشمیر میں عسکریت پسندی اور احتجاج کی نئی لہر شروع ہوئی تھی۔
پولیس نے ریاض نائیکو کے سر پر 12 لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا۔ پولیس کے مطابق وہ فوجیوں پر حملوں، ان کے قتل اور اغوا کے کئی معاملات میں پولیس کو طویل عرصے سے مطلوب تھے۔
یہ بھی پڑھیے
اس جھڑپ کے بعد جنوبی کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا اور موبائل انٹرنیٹ بھی معطل کر دیا گیا لیکن پولیس نے سرکاری طور پر ریاض نائیکو کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس کی وجہ وہ نئی سکیورٹی پالیسی بتائی جا رہی ہے جس کے تحت جھڑپوں میں مارے گئے عسکریت پسندوں یا اُن کی تنظیم کی شناخت نہیں کی جائے گی تاکہ وادی میں عسکریت پسندوں کی مقبولیت میں اضافے کے رحجان کو ختم کیا جا سکے۔
کشمیر میں اعلیٰ پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لوگوں کی شمولیت سے مسلح تشدد کا رجحان بڑھ جاتا تھا اور نوجوان تشدد کی طرف مائل ہو رہے تھے۔
اسی پالیسی کے تحت گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جن 20 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو جھڑپوں میں ہلاک کیا گیا اُن کی لاشیں لواحقین کے سپرد کرنے کی بجائے شمالی کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب اُوڑی میں اس قبرستان میں دفن کر دیا گیا، جہاں اکثر مبینہ پاکستانی نژاد عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا رہا ہے۔
ریاض نائیکو کا تعلق پلوامہ کے گاؤں بیگ پورہ سے تھا اور آٹھ برس قبل ریاضی میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
گذشتہ برس پلوامہ میں انڈین فوج پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد بی بی سی کے زبیر احمد سے بات کرتے ہوئے ریاض نائیکو کے اہل خانہ نے کہا تھا انھوں نے اب یہ تسلیم کر لیا ہے کہ گھر میں جلدی یا دیر سے نائیکو کی لاش ہی آئے گی۔
نائیکو کے والد اسداللہ نائیکو کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی مقابلہ ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا مرنے والوں میں شامل ہو گا‘۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے 40 روز سے سخت لاک ڈاوٴن جاری ہے اور اس دوران مزید شدت سے شروع کیے گئے فوجی آپریشن میں اب تک 34 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے ہیں۔
ان جھڑپوں کے دوران دو فوجی افسروں اور ایک پولیس انسپکٹر سمیت 17 سکیورٹی اہلکار بھی مارے جا چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کپواڑہ کے قصبے ہندوارہ میں ایک طویل جھڑپ کے دوران ایک میجر، ایک کرنل اور پولیس انسپکٹر سمیت پانچ اہلکار مارے گئے جس کے اگلے ہی دن عسکریت پسندوں نے مزید تین نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایک جسمانی طور معذور نوجوان بھی مارا گیا تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حملے میں تین نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اہلکاروں نے ردعمل میں فائرنگ کی جس میں نوجوان ہلاک ہوا۔
اس سے پہلے اپریل میں کپواڑہ کے کیرن سیکٹر میں بھی ایک شدید جھڑپ ہوئی اور تین روزہ جھڑپ کے بعد فوج نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے انڈین حدود میں درخل ہونے والے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور فائرنگ کے تبادلے میں پانچ فوجی بھی مارے گئے۔
آپریشن کے دوران نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات بھی جنوبی کشمیر کے اضلاع کولگام اور اننت ناگ میں پیش آئے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُنھیں مسلح عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے اور بدھ کو جنوبی کشمیر میں ایک جھڑپ میں حزب المجاہدین کے جن چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، اُن کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ عام شہریوں کی ہلاکت میں اُن ہی کا ہاتھ تھا۔ تاہم کسی بھی مسلح گروپ نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
اس پس منظر میں پوری دُنیا کی طرح اس خطے کو بھی کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور گذشتہ تین ہفتوں کے دوران یہاں نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
تاہم فوج، پولیس اور نیم فوجی عملے کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں شدت کی وجہ سے کشمیر میں لوگ اب کورونا سے زیادہ زمینی حالات سے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔
لال چوک کے ایک تاجر عامر احمد شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دُنیا کو کورونا کا خوف ستا رہا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کورونا تو چھوڑ دے گا، لیکن اُس کے بعد کشمیر کے میدان جنگ میں جو کچھ ہو سکتا ہے، اُس سے بچنے کی کیا صورت ہے؟‘
خیال رہے کہ گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کر کے جن پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اُن میں سے بیشتر ابھی جاری ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور نصف درجن سے زیادہ رہنماؤں کے علاوہ سینکڑوں کشمیری نوجوان، تاجر، وکلا اور رضاکار جیلوں میں ہیں اور عالمی سطح پر مطالبات کے باوجود تیزرفتار انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو نہیں ہٹایا جا رہا۔
وادی میں تقریباً دو سال سے دلی کا براہ راست انتظامی کنٹرول ہے، اسمبلی تحلیل ہے اور انتخابات کے بارے میں نئی دہلی نے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔
مبصرین کا خیال تھا کہ کورونا کی وبائی صورتحال بدلتے ہی کشمیر میں حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح تشدد کی وارداتوں نے ان اندازوں کی تردید کر دی ہے۔
اب مبصرین کہہ رہے ہیں کہ انڈین حکومت کی طرف سے کشمیریوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانے اور یہاں اسرائیلی طرز پر ہندوں کو آباد کرنے جیسی کوششوں سے یہاں کے لوگوں میں خوف ہی نہیں بلکہ بقا کی جنگ لڑنے کی مجبوری کا احساس بھی پایا جاتا ہے، جو آئندہ دنوں میں خطرناک رُخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
اس ضمن میں گذشتہ دو روز کے دوران مارے گئے عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لاک ڈاؤن اور وائرس کے خوف کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔











