#DelhiRiots: دلی میں ہلاکتیں 34، حالات تاحال معمول پر نہ آ سکے

،تصویر کا ذریعہReuters
انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہونے والے فسادات میں زخمی ہونے والے افراد کی اموات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور اب یہ تعداد 30 سے بڑھ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے محکمہ صحت کے ایک سینیئر عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ تشدد کی وجہ سے اموات کی مجموعی تعداد جمعرات کو 34 تک پہنچ گئی ہے۔
دہلی کے گرو تیغ بہادر ہسپتال (جی ٹی بی) میں 30 اموات ہو چکی ہیں جبکہ دو زخمی لوک نائک جے پرکاش نارائن ہسپتال میں ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
دہلی کا شمال مشرقی علاقہ چار دن سے پرتشدد جھڑپوں اور مسلمانوں کی املاک پر حملوں کا مرکز رہا ہے اور ان واقعات میں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جن علاقوں میں تشدد اور جھڑپیں ہوئیں ان میں جعفرآباد، اشوک نگر، گوکلپورہ، بھجن پورہ اور کھجوری خاص کے علاقے اہم ہیں۔
پرتشدد واقعات کے چوتھے دن جمعرات کو بھی متاثرہ علاقوں میں حالات مکمل طور پر معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
بدھ کو اپوزیشن جماعت کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے دہلی میں تشدد سے متعلق پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ امیت شاہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان فسادات کے لیے دلّی سے بی جے پی کے مقامی رہنما کپل مشرا کے بیانات کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا تھا ’دلی پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم، جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی کروائیے۔ اس کے بعد ہمیں مت سمجھائیے گا، ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے۔ صرف تین دن۔‘
کئی لوگوں کا الزام ہے کہ کپل مشرا کے اس بیان کے بعد شمال مشرقی دلی کے حالات بگڑنے لگے۔
بی جے پی کے ہی رہنما اور سابق کرکٹر گوتم گمبھیر نے کہا کہ ’چاہے وہ کپل مشرا ہوں، جس نے بھی اشتعال انگیز تقریر کی ہے اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ اب کسی پارٹی کا مسئلہ نہیں رہ گیا ہے، یہ پوری دلی کا مسئلہ ہے۔ کپل مشرا کے خلاف جو بھی کارروائی ہوگی میں اس کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہوں۔‘
ادھر دہلی تشدد کیس کی سماعت کرنے والے ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر کو بھی ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے بدھ کو اس معاملے کی سماعت کے دوران سیاسی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات پر کارروائی نہ کرنے پر مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کی سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ بی جے پی کے تین رہنماؤں انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما اور کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔
عدالت نے کہا تھا ’ہم نہیں چاہتے کہ دلی میں تشدد سنہ 1984کی شکل اختیار کر لے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
اس معاملے میں دلی ہائی کورٹ نے سات احکامات جاری کیے ہیں
- جن لوگوں کے رشتہ داروں کی جان گئی ہے انہیں انتظامیہ تسلی دے اور پوری عزت کے ساتھ مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کی جائیں۔
- ایک ہیلپ لائن اور ہیلپ ڈیسک بنایا جائے۔ دلی پولیس کے سپیشل کمشنر نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا جلد ہی کیا جائے گا۔
- ایمبولنس کا معقول انتظام کیا جائے اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
- اگر ضرورت کے مطابق پناہ گاہیں نہیں ہیں تو ان کا انتظام کیا جائے۔
- ان پناہ گاہوں میں بنیادی ضروریات کی اشیاء کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ کمبل، ادویات، بیت الخلا اور پانی کا معقول انتظام ہونا چاہیے۔
- ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی 24 گھنٹے کی ہیلپ لائن شروع کرے جس کے ذریعہ متاثرین کو فوری مدد پہنچائی جائے گی۔
- متاثرین کی مدد کے لیے پیشہ ورانہ امدادی کارکنان تعینات کیے جائیں۔
بی بی سی مراٹھی کے نمائندے کے گائیکواڈ نے بدھ کو رات گئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ ان کے مطابق جعفر آباد سے چاند باغ جانے والی اہم سڑکوں پر اکا دکا لوگ ہی موجود تھے لیکن گلیوں کے اندر ایسے افراد تھے جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ڈنڈے تھے اور فضا میں موجود تناؤ کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔
مواد دستیاب نہیں ہے
Facebook مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.Facebook پوسٹ کا اختتام
پولیس کے جعفر آباد میں مظاہرین سے علاقہ خالی کروا لیا ہے اور پولیس اہلکاروں کے مطابق اس علاقے میں انھیں شرپسندوں کو گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
تاہم سخت سکیورٹی کے باوجود نامہ نگار کو موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے دکھائی دیے جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔
بی بی سی ہندی کی نمائندہ بشریٰ شیخ کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب جعفرآباد میٹرو سٹیشن سے کہیں پہلے سڑک رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دی گئی تھی اور سارا علاقہ ویران تھا۔
ان کے مطابق بہت سے لوگ علاقے سے سامان لے کر جا رہے تھے اور ایسا لگتا تھا وہ علاقہ چھوڑ رہے ہوں۔
نامہ نگار کے مطابق جب انھوں نے موقع پر موجود لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کی ناراضگی واضح طور پر نظر آ رہی تھی اور لوگ حکومت سے نالاں دکھائی دیے اور تشدد کا الزام حکومت پر عائد کر رہے تھے۔
نامہ نگار سلمان راوی کے مطابق ہنگاموں کا نشانہ بننے والے مصطفیٰ آباد کے علاقے میں بھی بدھ کو رات گئے سناٹا تھا، سڑکیں پتھروں سے اٹی تھیں جبکہ جلے ہوئے مکانات وہاں پیش آئے واقعات کا اشارہ دے رہے تھے۔
بی بی سی کی ٹیم نے کچھ ایسے مکانات کا دورہ کیا جنھیں منگل کی رات نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ ان مکانات میں موجود سوختہ سامان سے اب بھی دھواں اٹھ رہا تھا اور ہر چیز بکھری پڑی تھی مگر وہاں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ کی دہلی فسادات پر تشویش
دہلی میں ہونے والے تشدد پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن دجارک نے کہا ہے کہ انڈین دارالحکومت میں مظاہروں کے بعد وہاں سے آنے والی خبریں افسوسناک ہیں۔
جمعرات کو ڈوجاریک نے کہا کہ سیکرٹری جنرل دہلی میں تناؤ اور اموات کی خبروں پر سخت غمزدہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور کسی بھی قسم کے تشدد سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ، دسمبر 2019 میں ، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن نے کہا تھا کہ انڈین حکومت شہریت کے حوالے سے جو ترمیم شدہ قانون لائی ہے ، وہ متعصب ہے۔
گذشتہ سال دسمبر میں مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کے متعارف ہونے کے بعد سے ، ملک کے دارالحکومت دہلی میں متواتر احتجاج ہوتے رہے ہیں۔
حالیہ فسادات بھی اسی قانون کے مخالفین کی جانب سے دیے گئے دھرنے میں شریک افراد اور اس قانون کے حامیوں کے مابین جھڑپوں کے بعد شروع ہوئے اور دیکھتے دیکھتے ہی ان کا دائرہ دارالحکومت کے شمال مشرقی حصے میں ان علاقوں تک پھیل گیا جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں۔













