بنارس کے غوطہ خور
- مصنف, سہیل حلیم
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، بنارس
بنارس میں دریائے گنگا کے پرانے پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو بھرت اور پردیپ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔
ان نوجوانوں کو جانا تو کہیں نہیں، لیکن پھر بھی پورے دن انھیں ٹرینوں کا انتظار رہتا ہے۔
ہندو دریائے گنگا کو مقدس سمجھتے ہیں اور ٹرینوں میں سوار عقیدت مند دریا میں بطور نذرانہ پیسے پھینکتے ہیں اور بھرت اور پردیپ جیسے نہ جانے کتنے نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ سکے گہرے پانی سے باہر نکالنے میں جٹ جاتے ہیں۔
ان سکوں سے ہی ان کے گھروں میں چولھا جلتا ہے۔
روزانہ چار سو سے پانچ سو روپے نکال لینا ان نوجوانوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے، خود بھرت کے دادا اور چاچا نے انھی پانیوں میں غوطہ لگاتے ہوئے دم توڑا تھا۔
بھرت کہتے ہیں کہ 'پانی میں سے سکے نکالنا بہت خطرے کا کام ہے، کبھی پتھروں سے چوٹ لگ جاتی ہے، کبھی پانی کے اندر ہی دم ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔میرے دادا اور چاچا پانی میں کودے تھے لیکن زندہ واپس نہیں آئے۔۔۔انھوں نے ہی مجھے تیرنا سکھایا تھا۔'

لیکن عقیدت مند پانی میں صرف سکے ہی نہیں پھینکتے، دریا کی تہہ میں بہت سے راز بھی دفن ہیں، بھرت اور ان کے بھائی کو پستولیں اور خنجر بھی ملے ہیں۔
پردیپ کہتے ہیں کہ 'کبھی پستول بھی ملتی ہے اور چاقو بھی، سونا چاندی بھی مل جاتا ہے۔ پھر ہم سنار سے جاکر چیک کراتے ہیں کہ سونے کا پانی تو نہیں چڑھا ہے۔ لیکن ہتھیار ہمیں مقامی تھانے میں جمع کرانے پڑتے ہیں۔ لوگ کسی کو مار کر شاید ہتھیار یہاں پھینک دیتے ہیں۔'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
بنارس کا شمار انڈیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں گنگا کے کنارے رہنے والے لوگ گزر بسر کے لیے دریا پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ کوئی کشتی چلاتا ہے، کوئی مچھلی پکڑتا ہے اور کوئی پانی میں سے سیدھا کیش ہی نکالتا ہے!
ان دونوں نے سکول جانا تو بچپن میں ہی چھوڑ دیا تھا لیکن بھرت کو ڈانس کا شوق ہے۔ وقت بدل رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان نوجوانوں کی دلچسپیاں بھی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'ڈانس سے میری زندگی بدل گئی ہے، اب میں گھر میں پیسے دیتا ہوں۔ اچھے اچھے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، سٹیج پر شو کرنے کے لیے میں اپنے سر کے بل جاتا ہوں، ہر شام پریکٹس کرتا ہوں۔'
لیکن کیا کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ خطرے کا یہ کام چھوڑ کر ڈانس پر ہی توجہ دیں؟ ان کا سادہ سا جواب ہے کہ 'پیسے نہیں ہوں گے تو ڈانس کیسے سیکھیں گے؟'
بنارس میں کہتے ہیں کہ گنگا کسی کو مایوس نہیں کرتی، چاہے دین کی تلاش ہو یا دنیا کی۔











