سیلاب ڈائری: پانی سے کسے بچائیں اور کون ڈوبے، سندھ میں بڑا سوال

سندھ سیلاب

پاکستان میں غیرمعمولی طویل مون سون کے دوران شدید بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

بی بی سی اردو کے نمائندے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور امدادی کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہے ہیں جنھیں ایک ڈائری کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے کی پہلی قسط میں جانیے کہ ریاض سہیل نے سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں کیا دیکھا۔

Presentational grey line

رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے لیکن ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے شہر نصیر آباد کے آس پاس کے گاؤں سے چنگچی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ پیدل لوگوں کی آمد جاری تھی ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ بعض خواتین نے سروں پر کپڑے کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی اور بعض کی گود میں بچے تھے۔ ان سب کے گاؤں اور گھر زیر آب آ چکے تھے۔

نصیرآباد، لاڑکانہ سے کچھ دور انڈس ہائی وے پر واقع تقریباً 25 ہزار آبادی والا شہر ہے۔ جب ہم رات کو یہاں سے لاڑکانہ جا رہے تھے تو لوگوں نے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کی ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے شہر سے پانی کی نکاسی نہیں کی جا رہی اور گذشتہ ایک ہفتے سے بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔

اس آگ میں ٹائروں کی ناکارہ ٹیوب ڈالتے ہوئے ایک شخص نے جہاں مجھے یہ بتانے کی کوشش کی کہ شہر سے پانی کی نکاسی نہیں ہو رہی وہیں ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ دوسرے علاقوں کے بجائے خاص طور پر سیلابی پانی کا رخ ان کے علاقے کی طرف موڑا گیا ہے۔

اسی دوران ایک مقامی معزز شخص مظاہرین کو سمجھانے آن پہنچے کہ اس طرح سڑک بند کر کے لوگوں کو تنگ نہ کریں لیکن جواب میں اُنھیں یہ طعنہ ملا کہ ’تم نے تو اپنے گاؤں سے پانی کی نکاسی کروا لی اب شہر کی تمھیں کیا پرواہ۔‘

نصیر آباد، لاڑکانہ
،تصویر کا کیپشننصیر آباد میں لوگوں نے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کی ہوئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے شہر سے پانی کی نکاسی نہیں کی جا رہی

شہروں سے پانی کی نکاسی کس رخ میں کی جائے یا شہر میں سیلابی پانی آنے سے کیسے روکا جائے اس وقت سندھ میں سیاسی و انتظامی کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔

اس سے پہلے صبح جب کراچی سے روانہ ہوئے تو قومی شاہراہ سے جانے کا ارادہ کیا لیکن نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا عوامی پیغام آیا کہ حیدرآباد سے پہلے اور بعد میں دریائے سندھ پر بنائے گئے دوسرے پل تک مٹیاری، سعید آباد، سدھوجا، نوشہرو فیروز ببرلو بائی پاس کے قریب سفر سے گریز کریں۔

جامشورو پہنچے تو یہاں سے سیلاب متاثرین نظر آنے لگے۔ سندھ یونیورسٹی کے قریب نوجوان سڑک پر بینر لیے مدد کے لیے کھڑے تھے جبکہ لمز یونیورسٹی کے آس پاس کئی سو خاندان بغیر خیموں میں اپنا سائبان بنائے ہوئے موجود تھے۔ جوں جوں آگے بڑھتے گئے انڈس ہائی وے پر یہ منظر عام ہو گئے۔

جامشورو کے قصبے سن کے بعد دریائے سندھ پھیل جاتا ہے۔ یہاں حفاظتی بند نہیں اس لیے لاکھڑا پاور ہاؤس کے قریب دریائے سندھ اور بارش کا پانی ساتھ ساتھ انڈس ہائی وے پر سفر کرتا ہے۔ یہاں دریا کے قریب کئی گاؤں تھے جن کے باسی اب انڈس ہائی وے پر موجود تھے جبکہ قریب ہی 2010 کے سیلاب کے بعد بنائی گئی ایک کالونی تھی، ایک ایک کمرے پر مشتمل گھروں کی اس کالونی کی حالت ایسی تھی جیسے پچاس ساٹھ سال پرانی ہو۔ اس میں چند خاندان نظر آئے۔

نصیر آباد
،تصویر کا کیپشننصیر آباد کے قریب ہی پانی تیز رفتاری کے ساتھ انڈس ہائی وے پر چل رہا تھا

سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید کی جائے پیدائش سن سے جیسے آگے بڑھے تو ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف پانی ہی پانی تھا جبکہ ایک جگہ یہ ٹریک پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور نیچے کی طرف جھک بھی چکا تھا۔ اس ٹریک پر کوٹری سے لاڑکانہ تک ریل گاڑی اور مال گاڑی چلائی جاتی ہے۔ مرکزی ریلوے ٹریک پر آمد و رفت پہلے ہی معطل ہے کیونکہ نوابشاہ میں یہ زیرِ آب تھا۔

ٹرکوں، ٹریکٹر ٹرالیوں اور پک اپ پر چارپائیوں، بکریوں کے ساتھ آگے کی طرف جاتے ہوئے کئی خاندان نظر آئے۔ ان میں سے کچھ سیہون میں بھی رکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آس پاس کے علاقوں کے رہائشی ہیں۔ یہاں بھی سرکاری عمارتوں میں پہلے ہی متاثرین موجود ہیں اس لیے دیگر کے لیے اب جگہ سڑک ہی بچی تھی۔

سیہون میں ہی معلوم ہوا کہ جوہی شہر میں لوگ شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی رنگ بند بنا رہے ہیں جیسا کہ وہ 2010 میں بھی کر چکے تھے۔ جوہی دادو سے تقریباً 20 کلومیٹر دور واقع ہے جس کی آبادی 30 ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف ایم این وی بند اور دوسری طرف ایف پی بند ہے جس میں گاج ندی اور بلوچستان سے آنے والا پانی آتا ہے۔

محمد ہاشم کھوسو نے بتایا کہ سنہ 2010 کے سپر فلڈ میں آس پاس کا علاقہ ڈوب گیا تھا لیکن وہ شہر کو بچانے میں کامیاب رہے، اس کی وجہ یہی رنگ بند تھا جس کی تعمیر کے لیے مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی کام کیا تھا۔

قربان علی کے مطابق اس مرتبہ حکام نے انھیں مشینری دی ہے، باقی مزدوری مقامی لوگ خود کر رہے ہیں اور ان میں تمام سیاسی جماعتیں و مذہبی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ ان کے مطابق وہ لوگ جو بلدیاتی انتخابات ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ بھی اس وقت ساتھ کھڑے ہیں۔

جوہی میں حفاظتی رنگ بند
،تصویر کا کیپشنجوہی شہر میں لوگ شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی رنگ بند بنا رہے ہیں

جوہی کے آس پاس تین بین الاقومی آئل اینڈ گیس کمپنیاں موجود ہیں۔ مقامی سماجی کارکن معشوق برہمانی نے الزام لگایا کہ یہ کمپنیاں گیس و تیل تو یہاں سے حاصل کرتی ہیں لیکن یہاں کے لوگوں سے لاتعلق ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ 2010 کے سیلاب میں بھی ریسکیو، ریلیف اور بحالی میں ان کمپنیوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور اب بھی ان کی تمام توانائیاں آئل اور گیس فیلڈز کو بچانے کے لیے ہیں۔

سیلاب

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock

شام پانچ بجے کے قریب جب ہم جوہی سے باہر نکل رہے تھے تو پانی کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ مقامی لوگوں کو خدشہ تھا کہ دادو جوہی کا راستہ کسی بھی وقت زیر آب آ سکتا ہے کیونکہ پانی کو راستہ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے اور آگے منچھر جھیل کے دروازے بھی بند ہیں اس وجہ سے پانی آگے کی طرف نہیں بڑھ رہا۔

دادو شہر کے باہر بھی متاثرین سڑک پر نظر آئے۔ اس کے بعد خیرپور ناتھن شاہ کا شہر آتا ہے جو 2010 کے سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔ اس مرتبہ سیلابی پانی سے اس شہر کو بچانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

مقامی صحافی مختیار چانڈیو کے مطابق روایتی طور پر انگریزوں کے زمانے سے یہ طے ہے کہ جب بھی سیلابی صورتحال ہو گی تو دادو کینال سے نکلنے والی جوہی برانچ کو کٹ لگایا جائے گا اور یہ پانی مین نارا ویلی ڈرین کے ذریعے منچھر جھیل میں چلا جائے گا لیکن 2010 کے سیلاب میں اسے کٹ نہیں لگانے دیا گیا جس وجہ سے خیرپور ناتھن شاہ ڈوبا تھا۔

ان کے مطابق اس وقت بھی کشیدگی جاری ہے۔ ’دونوں طرف حکمران پیپلز پارٹی کے ہی لوگ ہیں۔ خیرپور ناتھن شاہ والے کہتے ہیں کٹ لگائیں شہر کو بچائیں جبکہ دوسرے کہتے ہیں کٹ لگانے نہیں دیں گے جوہی متاثر ہو گا۔‘

رات گئے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ بالاخر جوہی برانچ کو کٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، جس کے بعد پانی کا رخ جوہی کی طرف ہو جائے گا۔

میہڑ
،تصویر کا کیپشنمہندی اور ماوے کے لیے مشہور میہڑ شہر بھی پانی میں گھرا ہوا ہے

خیرپور ناتھن شاہ سے آگے میہڑ شہر آتا ہے جس کی مہندی اور ماوے کے چرچے ہیں۔ شہر سے باہر نکلے تو انڈس ہائی وے کے دونوں اطراف پانی ہی پانی نظر آیا اور نصیر آباد کے قریب ہی پانی تیز رفتاری کے ساتھ انڈس ہائی وے پر چل رہا تھا، سڑک کو ایک طرف سے بند کر دیا گیا تھا جبکہ دوسری طرف کے کنارے بھی ٹوٹے ہوئے تھے جس میں ایک کوچ پھنسی ہوئی تھی۔

نصیر آباد پر تین گھنٹے کے قریب لگ گئے اور احتجاج کی وجہ سے آگے جانا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس دوران لاڑکانہ کے علاوہ مردان جانے والی کوچز اور ٹرالر بھی کھڑے رہے۔ قریب میں موجود واحد ہوٹل پر کھانا بھی ختم ہو گیا پھر بالآخر انتظامیہ کے اہلکار آئے، مذاکرات ہوئے اور سڑک کھل گئی مگر مظاہرین کی اس تنبیہ کے ساتھ اگر پیر سے پانی کی نکاسی نہیں ہوئی تو وہ دوبارہ دھرنا دیں گے۔

سڑک کھلنے کے بعد ہم اپنی منزل لاڑکانہ کے لیے روانہ ہوئے جہاں کی صورتحال کل آپ تک پہنچائیں گے۔