بارش اور سیلاب: سندھ کا علاقہ ’کاچھو‘ جہاں ہر دوسرا گاؤں پانی میں گھرا ہے

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

    • مصنف, شبینہ فراز
    • عہدہ, صحافی

’ہم زمین پر برباد بیٹھے ہیں اور مراد علی شاہ آسمانوں میں اُڑ کر چلے گئے، زمین پر اترے ہی نہیں۔‘

رقت بھری آواز میں یہ شکوہ تھا ایک بزرگ کا، جن کا گاﺅں کیچی شاہانی چاروں جانب سے چار فٹ پانی میں گھرا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک مہینے سے ہمارے گوٹھ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی جانے کے لیے کشتی چاہیے، جس کا کرایہ بھی ہم غریبوں کے پاس نہیں۔‘

’اس سیلاب میں ہم تباہ ہو چکے ہیں، جو چھوٹی موٹی زراعت کرتے تھے وہ سب برباد ہو گئی۔ حکومت مدد نہیں کرے گی تو ہم مر جائیں گے۔‘

یہ اگست کا پہلا ہفتہ تھا جب ہمیں صوبہ سندھ کے علاقے کاچھو جانے کا موقع ملا۔ اس وسیع و عریض علاقے میں دور دور تک سیلابی پانی ٹھہرا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے گاﺅں اس پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

کچھ گاﺅں اس طرح سے پانی میں گھرے ہوئے تھے کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے کشتی کے سوا کوئی طریقہ نہ تھا۔ علاقے کی تمام کچی پکی رابطہ سڑکیں اور چھوٹے پل بہہ چکے تھے۔

مقامی رضاکار کشتیوں میں گاﺅں والوں تک کھانا اور پینے کا صاف پانی پہنچا رہے تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کھانا اور پانی ہر گاﺅں تک نہیں پہنچ سکتا تھا اور جہاں پہنچ رہا تھا ان کے لیے بھی ناکافی تھا۔

کیچی شاہانی کی نوراں نے کہا کہ گھر میں جو کچھ تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ ’اب تو مدد کے لیے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مدد آ بھی جائے تو دن میں ایک تھیلی چاولوں کی بمشکل ملتی ہے، جسے میں، میرا شوہر اور تین بچے کھاتے ہیں۔‘

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

نوراں کی بات سن کر ہمارے ساتھ موجود مقامی رضاکار میر علی نے سر جھکا لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں یہ سب ناکافی ہے مگر ہم اس کا انتظام بھی بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔

لوگ حکومت کے لیے جو الفاظ استعمال کر رہے تھے، وہ ہم یہاں نہیں لکھ سکتے مگر ان کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی آفت سے نمٹنے کے لیے صرف رضاکار نہیں بلکہ سرکاری مشینری اور وسائل پوری طرح سے استعمال ہونے چاہیے تھے۔

یہ صرف ایک گاﺅں کا منظر نامہ نہیں بلکہ پورے کاچھو کا یہی حال ہے۔ کاچھو کی یونین کونسل ٹنڈو رحیم کے رہائشی اور سماجی کارکن رانجھن جمالی کا کہنا ہے کہ صرف ہماری یونین کونسل میں چھوٹے بڑے 200 گاﺅں ہیں جن تک کشتی کے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا۔

’ 25 سے 30 ہزار افراد اس سیلابی پانی سے براہ راست متاثر ہیں۔ کئی ہفتے سے یہاں پانی کھڑا ہے جس میں ہمارے مٹی کے کچے گھر کسی بتاشے کی طرح گھل کر گر رہے ہیں۔ لوگوں نے جوار اور تل کے بیج بوئے تھے، ان کے بیجوں اور ٹریکٹر کے پیسے بھی برباد ہو گئے ہیں۔‘

اس بار پاکستان میں مون سون کا موسم شدید اور طویل رہا۔ کم وقت میں زیادہ بارشوں نے پورے ملک میں تباہی پھیلا دی جس میں بلوچستان اور اس کے بعد صوبہ سندھ بری طرح سے متاثر ہو ئے۔

پاکستان کے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ 14 جون تا 18اگست تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق دو ماہ کے دوران 649 اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 103 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

صوبہ سندھ میں 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 66 بچوں سمیت 141 اموات ہوئی ہیں اور تقریباً پانچ سو افراد زخمی ہیں۔ صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اور 32 ہزار سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے۔ انفراسٹرکچر کے نقصان کی بات کریں تو 33 ہزار مکان، 2100 کلومیٹر طویل سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 45 پل اور 32 دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔

صوبہ سندھ میں کاچھو کا علاقہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور بلوچستان سے آنے والے پہاڑی ندی نالوں نے یہاں طغیانی کی کیفیت پیدا کردی۔

کاچھو کا نیم صحرائی علاقہ

کاچھو کا یہ نیم صحرائی علاقہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں ہے۔ کیرتھر کے یہ پہاڑ صوبہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہیں، جن کی لمبائی 9 ہزار سکوائر کلومیٹر ہے۔

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق کاچھو کا علاقہ دو اضلاع دادو اور شہدادپور قمبر پر مشتمل ہے، جو انتظامی طور پر 9 یونین کونسل میں منقسم ہے۔ ان میں تقریباً 280 چھوٹے بڑے گاﺅں اور آبادی تقریباً دو لاکھ 40 ہزار افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 75 فیصد سیلاب سے متاثر ہیں۔

اس علاقے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں نہری نظام موجود نہیں کیونکہ اس علاقے کو بارشیں اور کیرتھر کے پہاڑوں یعنی بلوچستان سے آنے والا پانی سیراب کرتا ہے۔

ان پہاڑوں سے بے شمار ندی نالے سیلابی پانی لے کر اس نشیبی علاقے میں اترتے ہیں لیکن سب سے بڑی ندی ’نئیں گاج‘ کہلاتی ہے جو مون سون کے موسم میں کسی دریا کا منظر پیش کرتی ہے۔

بلوچستان سے یہ پانی ہر سال آتا ہے اور یہاں اسی پانی سے زراعت ہوتی ہے مگر گذشتہ تین سال سے بارشوں کی مقدار بڑھنے سے اس علاقے میں سیلابی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اور اس بار کی تیز بارشوں نے اس علاقے کو حقیقتاً ڈبو دیا ہے۔

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

’کیا گاﺅں والے تیر کر کیمپ تک جاتے‘

پانی میں گھرے ان لوگوں کی خوراک، پینے کے لیے صاف پانی اور طبی سہولیات کے حوالے سے دور دور تک کوئی انتظام نظر نہیں آ رہا تھا سوائے چند رضاکاروں کے جو کھانا اور پانی پہنچا رہے تھے۔

ایک نوجوان نے اپنانام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ قریب موجود ایک نسبتاً اونچے مقام پر ابتدا میں ایک میڈیکل کیمپ لگایا گیا تھا۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ’کیا گاﺅں والے تیر کر دو پیناڈول لینے اس کیمپ تک جاتے اور پھر تیر کر واپس آتے؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ صبح یہ کیمپ لگا، کچھ بڑے لوگ بھی آئے، فوٹو سیشن ہوا اور پھر کیمپ لپیٹ دیا گیا۔

اس علاقے کے ایک سرگرم سماجی کارکن رشید جمالی کا کہنا تھا کہ آپ ان غریبوں کے دکھوں کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

’اب تک صرف گیسٹرو سے 28 افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وجہ ایک ہی تھی کہ یہ ہسپتال تک نہیں پہنچ سکے۔ کشتی والے دو ہزار کرایہ مانگتے ہیں اور 1500 تک راضی ہو جاتے ہیں مگر ان غریبوں کے پاس یہ رقم بھی کہاں سے آئے گی۔‘

میت لے جانا بھی مشکل

ان کا کہنا تھا کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ لوگ یہاں سے میلوں دور خشک علاقے تک میت کیسے لے کر جاتے ہوں گے؟پھر انھوں نے ایک دلخراش حقیقت بیان کی۔

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

ان کا کہنا تھا کہ میت لے جانے کے لیے چارپائی الٹی کر کے اس کے نیچے 30 لٹر والے چار خالی ڈرم باندھ دیے جاتے ہیں۔ پھر اس پر میت رکھ کر اس چارپائی کو پانی سے گزار کر لے جایا جاتا ہے۔خشک زمین کی تلاش میں 10 کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے اور اس دوران میت کندھوں پر اٹھائی جاتی ہے۔

متاثرین تک طبی سہولیات پہنچانے کے حوالے سے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر امجد حسین مستوئی کا کہنا تھا کہ بے شک یہ آفت بڑی ہے مگر ہماری چھ ٹیمیں فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔

’کیمپ بھی لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر کشتیوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گیسٹرو کے مریض موجود ہیں مگر ابھی یہ وبائی صورت اختیار نہیں کر پائی ہے۔ صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘

ڈاکٹر امجد کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومت نے میڈیکل کا سامان مہیا کیا ہے لہذا کوئی کمی نہیں لیکن انھوں نے اس بات کی تائید کی کہ متاثرین کی بنیادی ضرورت خوراک اور صاف پانی ہے۔

’لوگ ہم سے بھی خوراک اور پانی طلب کرتے ہیں۔ ہم صرف او آر ایس کے استعمال کے لیے ایک بوتل پانی ہی دے سکتے ہیں۔‘

ضلع دادو کے ڈپٹی کمشنر مرتضیٰ شاہ نے بتایا کہ یہاں پانی ہر سال آتا ہے اور 10 سے 15 دن تک کھڑا رہتا ہے۔

’وقتی طور پر کچے راستے منقطع ہو جاتے ہیں مگر یہ معمول ہے، لہذا لوگ بھی عادی ہیں لیکن اس بار بارشوں نے شدید سیلاب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ راستے پل منقطع ہو چکے ہیں مگر ہم کام کر رہے ہیں اور صورتحال قابو میں ہے۔ نقل مکانی کا کلچر کاچھو کے علاقے میں نہیں۔ لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں کو بھی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ ہم نے 16کشتیاں مہیا کر دی ہیں تاکہ آمدورفت میں آسانی ہو۔‘

لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ کشتیاں صرف سرکاری لوگ ہی استعمال کر رہے ہیں۔

سیلاب، سندھ

،تصویر کا ذریعہShabina Faraz

کاچھو کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت

صوبہ سندھ میں کاچھو کا علاقہ نیم صحرائی ہے اور اس کی جغرافیائی، ماحولیاتی اور تاریخی حیثیت سندھ کے دیگر حصوں سے الگ ہے۔ یہ علاقہ صرف سیلابی پانی سے ہی سیراب ہوتا ہے کیونکہ انگریزوں نے بھی اس علاقے میں نہری نظام نہیں بنایا تھا۔ تاریخی طور پر اسے بارانی علاقہ مانا جاتا ہے۔

جغرافیائی طور پر یہ علاقہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک کندھی کا علاقہ جو کیرتھر پہاڑوں کے قریب لال ریت والا علاقہ ہے اور دوسرا پٹ یعنی کندھی کے بعد میدانی یا صحرائی علاقہ ہے۔

دونوں حصوں کو قدیم زمانے سے کیرتھر پہاڑوں سے نکلتے بارانی ندی نالے سیراب کرتے آئے ہیں۔ اس علاقے کی زرخیزی کا انحصار یہی بارانی ندی نالے ہیں جن کی طغیانی کبھی کبھی سیلاب کا سبب بھی بنتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ندی نالے ہیں جن میں پہاڑوں سے قدرتی چشموں کا پانی صدیوں سے بہتا چلا آ رہا ہے۔

کاچھو کا بچاﺅ کیسے ہو؟

موسمیاتی تبدیلیوں سے بارشوں کا دورانیہ اور ان کی شدت بھی بڑھ رہی ہے تو کاچھو کو سیلاب سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

مشہور شاعر، ادیب اور تاریخ دان عزیز کنگرانی کے مطابق فطرت کے راستے میں رکاوٹ اور غلط منصوبہ بندی اس سیلاب اور تباہی کی وجہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ غیر معیاری اور منصوبہ بندی کے بغیر پکی سڑکیں بنانے سے برساتی ندی نالوں کے قدرتی بہاﺅ میں تبدیلی آئی ہے۔ ندی نالوں کے بہاﺅ کی جگہ پر پل تعمیر کرنے کے بجائے کازوے بنائے گئے ہیں۔

اس وقت تازہ صورتحال میں غیبی دیرو سے لے کر جنوب میں فرید آباد تک اور فرید آباد سے لے کر چھنی اور ٹنڈو رحیم خان تک کاچھو میں پانی دریا کی طرح بہہ رہا ہے۔

عزیز کنگرانی کہتے ہیں کہ ’دادو ضلع کی تحصیل جوہی کی سرحدوں پر کاچھو میں حاجی خان شہر سے ڈرگھ بالا، جوہی شہر سے واہی پاندھی، چھنی اور چھنی سے ٹنڈو رحیم خان روڈ پر کازوے کے بجائے جگہ جگہ مزید پل تعمیر کیے جاتے تو یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ پانی ان پلوں کے نیچے سے گزر جاتا اور اب بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔‘

ماہرین کے نزدیک اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اس پانی کو سیلاب میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے چھوٹے ڈیموں میں جمع کر لیا جائے تو اسی پانی سے علاقے کی قسمت بدل سکتی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کون کرے گا؟ اس کے لیے زمین پر اترنا ہو گا اور ان خانماں برباد لوگوں کی اشک شوئی کرنا ہو گی۔