تحریک عدم اعتماد: ’حکومت کے پاس قرارداد پر ووٹنگ کروانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے‘

عمران خان

،تصویر کا ذریعہFacebook/@ImranKhanPTI

    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

حال ہی میں جب صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ واضح اعلان سامنے آیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر پارلیمان میں ہونے والی کارروائی میں مداخلت کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے تو اس کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب حکومت کے پاس اس قرارداد پر ووٹنگ کروانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کیے گئے صدارتی ریفرنس پر ہونے والی سماعت کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا سپیکر چاہے بھی تو اس قرارداد پر ہونے والی ایوان کی کارروائی کو زیادہ دنوں تک مؤخر نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں انتخابات اور پارلیمان پر گہری نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز اینڈ پروسیجر کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد جمع ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 14 روز کے اندر اندر جب بھی بلایا جائے گا تو اجلاس کے پہلے دن کے ایجنڈے پر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد بھی شامل ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی طرف سے جب قرارداد ایوان میں پیش کر دی جائے تو سپیکر پر یہ لازم ہوگا کہ اس پر ضابطہ کار کے مطابق کارروائی کرے۔

طریقہ کار بتاتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ سپیکر قرارداد پیش ہونے کے بعد اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کروائے گا۔

’اگر اس قرارداد کے حق میں زیادہ ووٹ آئے تو پھر اس قرارداد پر بحث کے لیے تین سے چار دن مقرر کیے جائیں گے جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان اس قرارداد کے خلاف اور حق میں اپنی تقاریر کریں گے۔‘

کرکٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق 25 مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا کیونکہ یہ روایت رہی ہے کہ اگر قومی اسمبلی کا کوئی رکن وفات پا جائے تو فاتحہ خوانی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا جاتا ہے۔

تاہم پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک روایت ضرور رہی ہے کہ اگر کوئی رکن قومی اسمبلی وفات پا جائے تو اس اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کردیا جاتا ہے لیکن قانون یا قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی کا سپیکر چاہے تو فاتحہ خوانی کے بعد بھی اسمبلی کی کارروائی کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر پر یہ آئینی طور پر لازم ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہونے کے سات روز کے اندر اندر اس پر رائے شماری کروائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے دوران اگر منحرف ارکان اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو یہ ووٹ شمار کیا جائے گا اور سپیکر کے پاس ایسا کوئی اختیار قانون یا قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں درج نہیں ہے کہ وہ ایسے کسی منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کرے گا۔

’آئین کی شق 63 (الف) بڑی واضح ہے کہ اس قانون کا اطلاق صرف اُس وقت ہو گا جب کوئی منحرف رکن اس کا ارتکاب کرے گا۔ محض اندیشوں کی بنیاد پر کسی بھی رکن کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ ہی اس کو سزا دی جا سکتی ہے۔‘

پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے مگر اس میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

’عدالتی رائے پر عمل درآمد لازمی نہیں‘

ماہر قانون حامد خان سے جب اسی بابت سوال کیا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر جو بھی رائے ہو گی اس پر عمل درآمد کرنا لازمی نہیں ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کسی معاملے کی تشریح کر دے تو اس پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران پاکستان کے چیف جسٹس نے یہ واضح کیا ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی رکن کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا تو قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ اگر کوئی منحرف رکن ووٹ کاسٹ کرے تو اس کا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ سپیکر کے استحقاق اور اختیارات میں بہت فرق ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے کیا گیا ایسا اقدام جو کہ آئین سے متصادم ہو تو اس کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ ماضی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کرنے کے الزام میں نااہل کیا گیا تھا تو اس وقت کی قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا نے یوسف رضا گیلانی کو بطور رکن قومی اسمبلی ڈی سیٹ کرنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد ان کے اس فیصلے کو قومی اسمبلی میں چیلنج کیا گیا۔

اسی واقعے کے بارے میں حامد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے سپیکر کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی بحیثیت رکن قومی کی نشست کو اس روز سے ہی خالی تصور کیا جائے جس دن انھیں توہین عدالت میں سزا سنائی گئی تھی۔

’پارلیمانی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی‘

قومی اسمبلی کے سپیکر، اسد قیصر

،تصویر کا ذریعہNAtional Assembly

قومی اسمبلی کے سابق سپیکر حامد ناصر چٹھہ کا کہنا تھا کہ اسمبلی کا جو اجلاس بلاتا ہے ’غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ عام طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس صدر مملکت وزیر اعظم کی تجویز پر طلب کیا جاتا ہے لیکن تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے متعلق سپیکر اجلاس طلب کرتا ہے۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں 31 مئی سنہ 1986 سے لے کر تین دسمبر سنہ 1988 تک قومی اسمبلی کے سپیکر رہنے والے حامد ناصر چٹھہ کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ اسمبلی کا کوئی رکن وفات پا جائے تو عمومی طور پر روایت رہی ہے کہ اس رکن کی وفات کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دیا جاتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ سپیکر پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ فاتحہ خوانی کے بعد اجلاس ملتوی کر دے اور اگر وہ چاہے تو فاتحہ خوانی کے بعد اسمبلی کی کارروائی جاری رکھ سکتا ہے۔

حامد ناصر چٹھہ کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں یا اس کی مخالفت میں جو بھی تقاریر ہوں اور اگر سپیکر یہ سمجھے کہ اس بارے میں حزب مخالف اور حزب اقتدار کی طرف سے سیر حاصل گفتگو ہوئی ہے تو سپیکر اس تحریک پر ووٹنگ کروا سکتا ہے۔

بینر

انھوں نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کر دی جائے تو سپیکر چاہے بھی تو قومی اسمبلی کے اجلاس کو اس وقت تک غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی نہیں کر سکتا جب تک اس تحریک پر ووٹنگ نہ کروا لی جائے۔

البتہ حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ ووٹنگ کے دوران اگر کوئی منحرف رکن تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو سپیکر کی طرف سے ایسے رکن کا ووٹ شمار کرنے اور نہ کرنے کا معاملہ ایک گرے ایریا میں چلا جاتا ہے اور موقع پر سپیکر جو بھی فیصلہ کرے گا وہی حتمی تصور ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی کے سابق سپیکر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کسی فورم پر چیلنج نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر یہ معاملہ کسی عدالت میں چیلنج ہو تو ایسا ہونے کی صورت میں ارکان پارلیمنٹ جو کہ آئین اور قانون بنانے والے تصور کیے جاتے ہیں، اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

پارلیمانی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافی عبدالرزاق کھٹی کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت کو یہ سوٹ کرتا ہے کہ 25 مارچ کو ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دیا جائے تاکہ انھیں مزید دو تین دن مل جائیں۔

’ہو سکتا ہے کہ اس عرصے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے اور ان کی سزا کے تعین کے بارے میں سپریم کورٹ میں جو صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے اس بارے میں سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آ جائے۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہAnadolu Agency

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس نے یہ واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ڈرا دھمکا کر تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

عبدالرزاق کھٹی کے مطابق حزب مخالف کی تمام جماعتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ 25 مارچ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس ان جماعتوں کے تمام اراکین قومی اسمبلی ایوان میں موجود ہوں جبکہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی اس وقت ایوان میں آئیں گے جب تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی۔

اس وقت قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 162 ہے۔

عبدالرزاق کھٹی نے کہا کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ شاید حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے تمام ارکان بھی 25 مارچ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوں۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی تعداد سے زیادہ ہے جبکہ حکمراں جماعت نے 14منحرف ارکان کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے ہیں۔

عبدالرزاق کھٹی کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی اس روز یہ کوشش ہو گی کہ فاتحہ خوانی کے بعد تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو ایوان میں پیش کیا جائے لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہوسکے کیونکہ فاتحہ خوانی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار سپیکر کے پاس ہے اور ان کا یہ اقدام کہیں پر بھی چیلنج نہیں ہو سکتا۔

حزب مخالف کی جماعتیں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر اب تک جانبداری کا الزام عائد کرتی چلی آئی ہیں اور ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ بطور سپیکر نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے رکن کی حثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

عبدالرزاق کھٹی کے مطابق اس وقت سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ ہے اور جس روز قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا اس روز ایوان کا ماحول کشیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومتی بینچوں اور حزب مخالف کے ارکان کے درمیان تلخ کلامی ہونے کا بھی امکان ہے کیونکہ حزب مخالف کی جماعتوں کی کوشش ہوگی کہ اسی روز تحریک عدم اعتماد کی قرارداد ایوان میں پیش کی جائے جبکہ حکومت یہ چاہے گی کہ اس روز اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جا سکے۔