عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پارلیمان میں تیسری قوت کا کردار

عمران خان

،تصویر کا ذریعہReuters

    • مصنف, فرحت جاوید
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔ ہم یہ تحریر پہلی مرتبہ یکم مارچ کو شائع کی تھی جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بحث زور پکڑ رہی تھی۔

آپ سبھی کراچی کی آئی آئی چندریگر شاہراہ سے تو واقف ہوں گے۔ یہ سڑک پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم اسماعیل ابراہیم چندریگر کے نام سے منسوب ہے جو تحریک پاکستان کے بڑے رہنماؤں میں سے ایک تھے لیکن بطور وزیر اعظم انھیں بعض مبصرین پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ’ناکام وزیراعظم‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان کے دور میں پہلی بار ملک کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گونج سُنائی دی تھی۔

اکتوبر 1957 میں جب اس وقت کے صدر اسکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھے کہ انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا، تو اسکندر مرزا نے آئی آئی چندریگر کو وزارت عظمی کی ذمہ داری دی تھی۔

انھوں نے چند جماعتوں کے اراکین کا گٹھ جوڑ کر کے اُسی ماہ ایک مخلوط حکومت قائم کر دی۔ وہ وزیر اعظم بنے مگر اس کرسی پر صرف 55 دن ہی بیٹھ سکے۔ اُن کے اتحادیوں اور خود صدر کے درمیان اختلافات کے باعث تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا اور آئی آئی چندریگر نے استعفی دے دیا۔

اب ایک بار پھر پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بحث زور پکڑ رہی ہے اور اس بیچ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے تحریک عدم اعتماد آنے سے پہلے ہی مستعفیٰ ہونے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔

تو کیا 1957 کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا پائے گی؟

قومی اسمبلی

،تصویر کا ذریعہNational Assembly

،تصویر کا کیپشنقومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان کی تعداد کو دیکھ کر تو فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف شروع ہونے والی حالیہ تحریک صرف نمبر گیمز پر منحصر نہیں ہے۔

اس میں بہت سے ظاہر اور پوشیدہ عوامل بھی شامل ہیں۔ ان پوشیدہ یا خفیہ معاملات کی طرف جانے سے پہلے ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تحریک عدم اعتماد کیوں اور کیسے ایک آپشن کے طور پر سامنے آئی اور یہ تحریک اصل میں ہوتی کیا ہے؟

تحریک عدم اعتماد کیا ہے؟

آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد اراکین کو ایک تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانا ہو گا۔

اس کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی، جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے، نے فی الحال کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اب حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کی غرض سے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔

یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ خود حکومتی جماعت کے بعض اراکین سے بھی رابطہ مہم جاری ہے۔

پی پی پی

،تصویر کا ذریعہPPP

حکومتی اراکین ہوں یا حزب اختلاف کے ممبران، جس سے بھی بات کی جائے انھیں مکمل اعتماد ہے کہ تحریک کا فیصلہ انھی کے حق میں ہو گا۔

مگر یہ کھیل اتنا سادہ بھی نہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ، ایک تیسری قوت کی بات بھی بار بار کی جاتی ہو۔

کیا پارلیمان میں تیسری قوت اب بھی سرگرم ہے؟

معروف تاریخ دان عارف علوی نے 1972 میں اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ پاکستان کے قیام کے پہلے دس سال یہاں دو حکومتیں رہی ہیں۔

ایک وہ جو دکھائی دیتی تھی اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی تھی۔ نظر آنے والی حکومت سیاستدانوں اور اراکین پارلیمان پر مشتمل ہوتی جو ایک غیر مستحکم سیاسی نظام کا حصہ تھے۔ اور پردے کے پیچھے کام کرنے والی حکومت ’سول ملٹری بیورکریسی‘ کی تھی جس کے ہاتھ میں تمام تر طاقت اور جس کی بساط پر تمام مہرے اگلی چال کے منتظر رہتے۔

سیاسی منظر نامے پر فعال بعض اہم شخصیات یہ بات اب کھلے عام مانتے ہیں کہ یہ صورتحال آج بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔

’اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس حکومت کی حمایت نہ کرے‘

شاہد خاقان عباسی

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن’ہم بھی ملاقاتوں کا سنتے ہیں، ملاقات کرنے میں کچھ غلط نہیں ہے مگر ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ جو بات ہو وہ سب کے سامنے ہو۔ چھپ کر نہیں‘

بی بی سی نے اسی بارے میں مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری سے بات کی ہے اور ان سے پوچھا کہ ان دونوں کی جماعتیں اس قدر پُرامید کیوں ہیں کہ وہ کامیاب ہوں گے۔

شاہد خاقان عباسی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ہی کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس حکومت کی حمایت نہ کرے۔‘

مسلم لیگ ن کے ایک اور سینیئر رہنما کہتے ہیں کہ ’اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیا تو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لازمی کامیاب ہو گی۔‘

لیکن کیا ان رہنماؤں کو ایسا انفرادی طور پر محسوس ہو رہا ہے یا کوئی ’پیغام‘ ملا ہے؟ شاہد خاقان عباسی کے مطابق ان کے علم میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کو ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رابطے ہونے میں کوئی ’مضائقہ‘ نہیں ہے۔

’ہم بھی ملاقاتوں کا سنتے ہیں، ملاقات کرنے میں کچھ غلط نہیں ہے مگر ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ جو بات ہو وہ سب کے سامنے ہو۔ چھپ کر نہیں۔ ملاقاتیں کرنے میں کچھ برا نہیں ہے۔ سیاسی نظام میں ملاقاتیں ہوتی ہیں۔‘

تو کیا اس بیان کو اشارہ سمجھا جائے کہ اپوزیشن کو کہیں سے آگے بڑھنے کا ’گرین سگنل‘ مل گیا ہے؟

حکومتی کیمپ اس تاثر سے مکمل انکاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی جماعتیں خاص طور پر مسلم لیگ ن ایک غلط تاثر دینے کی ’ناکام‘ کوشش کر رہے ہیں۔ ’مسلم لیگ ن چالاک بننے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ دو کیمپ بن گئے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ فوج ایک ادارہ ہے اور پوری فوج وہی کرتی ہے جو آرمی چیف کہتے ہیں۔‘

’ہمیں تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی گارنٹی ہے‘

فواد چوہدری

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن’ہمیں اپنی سیاست اور اپنے لوگوں کا پتا ہے۔ ہم اپوزیشن کے برعکس اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں‘

ہم نے فواد چودھری سے یہ بھی پوچھا کہ کیا انھیں کوئی گارنٹی ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔

اُن کا جواب تھا کہ ان کے پاس گارنٹی موجود ہے۔ ’ہمیں گارنٹی ہے، ہمیں اپنی جماعت کے لوگوں کی گارنٹی ہے۔ ہمیں اپنی سیاست اور اپنے لوگوں کا پتا ہے۔ ہم اپوزیشن کے برعکس اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔‘

اسی موقع پر وہ یہ اشارہ بھی دیتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں: ’پاکستان میں پہلی بار سب ایک صفحے پر ہیں۔ ہر فیصلے پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تمام ادارے ایک ساتھ، ایک پیج پر ہوں۔‘

کیا حکومتی اتحاد ٹوٹ پائے گا؟

حزب اختلاف حکومت کے اتحاد میں شامل جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے۔ لاہور میں ملاقاتیں جاری ہیں، اور سندھ میں بھی۔

لانگ مارچ کا اعلان کیا جا رہا ہے، اور تو اور ٹی ایل پی، جس کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور ماضی میں خاص طور پر مسلم لیگ نواز اور حال ہی میں حکومتی جماعت پر دباؤ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، نے بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔

تو کیا اتحادی جماعتیں اس کو بھی ایک اشارہ سمجھ رہی ہیں؟ اس سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ حکومتی اتحاد کی بنیاد پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں یا کچھ اور؟

مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام میں ایک بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارا موقف بڑا واضح ہے۔۔۔۔ ہم عمران خان کے اتحادی نہیں ہیں۔ ہم ریاست کے اتحادی ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت کی ’کریڈیبلٹ‘' پر ریاست سب سے زیادہ اعتماد کرتی ہے۔ ’ہم ریاست کے ایسے ساتھی ہیں جو ہر اچھے بُرے وقت میں ریاست کے حمایتی اور اتحادی رہے ہیں، اور اس کے اتحادی رہیں گے۔ جب تک ریاست ان (حکومت) کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا معاہدہ بھی ریاست کے ساتھ ہے۔ عمران خان کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘

مسلم لیگ ق کے اراکین کی تعداد سات ہے جو حکومتی بینچ کا حصہ ہیں۔ فی الحال ق لیگ کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ عمران خان کے خلاف ووٹ کا حصہ بنیں گے۔ ایسا بیان ایم کیو ایم نے بھی نہیں دیا۔

البتہ ق لیگ کے پرویز الہی نے یہ ضرور کہا ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ عام طور پر اتحادی جماعتیں حکومت کے آخری دنوں میں اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کر بھی لیں تو ایسا کئی عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ مثلا نئی حکومت میں ان کی کیا جگہ ہو گی، انھیں کیا ملے گا، عوام کی رائے موجودہ حکومت کے بارے میں کیا ہے۔ نئے انتخابات میں انھیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وغیرہ۔

فضل الرحمان، شہباز شریف

،تصویر کا ذریعہScreen Grab

کچھ یہی صورتحال متحدہ قومی موومنٹ کی بھی ہے۔ لیکن گذشتہ تین برس کے دوران حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور زیادہ تر مواقع پر اتحادی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔ اب ملک کی معاشی صورتحال اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ اس وقت بڑھ گیا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں بھی نہ صرف حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ حکومتی کارکردگی سے مایوس آئندہ انتخابات میں خود اپنے ووٹ بینک کو قائل کرنے کے لیے پریشان نظر آتی ہیں۔

بظاہر حکومت کو یہ معاملہ پیچیدہ نہیں لگ رہا۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کی ناراضی ’پارٹی پالیٹیکس‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’میرا خیال ہے کہ اتحادی جماعتوں کا معاملے میں بعض اوقات ایک اندرونی چپقلش بھی ہوتی ہے۔ پارلیمان کے اندر لوگ زیادہ چیختے چلاتے نہیں ہیں، مگر پارلیمان کے باہر والے زیادہ شور مچاتے دکھائی دیتے ہیں۔‘

بعض اوقات حکومتی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان کوئی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر بیانیے میں پارٹی پالیٹکس کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی اپنی پارٹی پالیٹیکس زیادہ نظر آ رہی ہے۔‘

دوسری جانب حزب اختلاف اتحادی جماعتوں کے اراکین کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی ہی کے بعض اراکین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے مطابق اس وقت حکومتی جماعت کے دس سے زائد اراکین ہیں جن سے اپوزیشن کے رابطے ہوئے ہیں اور وہ ان کی حمایت پر تیار نظر آتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار محمل سرفراز کہتی ہیں کہ ’اتحادی جماعتوں کو جب اشارہ ملتا ہے کہ اب وہ اتحاد کا حصہ نہ رہیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔‘

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟

اس بارے میں اپوزیشن میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں کے مطابق اس کا فیصلہ ’اگلے مرحلے‘ پر کیا جائے گا اور فی الحال تمام تر توجہ عدم اعتماد کے ووٹ پر ہے۔ البتہ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وہ ’نئے وزیراعظم کی بجائے نئے انتخابات کرانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ عوام کو اس حکومت سے نجات مل سکے۔‘

اس سوال پر کہ کیا ان کی جماعت کو بلاول بھٹو زرداری یا پیپلز پارٹی کے کسی اور رہنما بطور وزیراعظم قبول ہوں گے، انھوں نے کہا کہ اس بارے میں ابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز سے آئندہ وزیراعظم کے امیدوار صرف شہباز شریف ہوں گے۔

دوسری جانب حکومت سمجھتی ہے کہ یہی اپوزیشن کی ناکام سٹریٹیجی ہے۔ حکومتی سیاستدانوں کے مطابق اپوزیشن کے پاس اس وقت کوئی متبادل پلان نہیں ہے۔ اپوزیشن اگر عمران خان کو ہٹاتی ہے تو ان کے پاس ایسے کوئی وعدے نہیں ہیں کہ ملک کی معیشت کو کیسے بہتر کیا جائے گا، عوام کو کیا ریلیف ملے گا اور کیسے ملے گا۔

وفاقی وزیر فواد چودھری کہتے ہیں کہ یہاں تو یہی طے نہیں کہ وزیر اعظم کون ہو گا: ’کیا اپوزیشن اراکین فوری انتخابات کے لیے مان جائیں گے اور کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی سے چلے جائیں گے؟‘

’یہ (اپوزیشن رہنما) تو لوگوں کو استعفوں پر قائل نہیں کر سکے، تو اسمبلی توڑنے کی شرط پر کوئی ووٹ نہیں دے گا۔ اس شرط پر ووٹ نہیں ملے گا کہ آج آپ ہم سے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ لیں اور کل ہم ممبر اسمبلی ہی نہیں ہو گا۔ اگلا الیکشن کیا خبر کب آئے گا۔‘

خیال رہے کہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ مگر تب سابق وزیراعظم نواز شریف اس تحریک کے حق میں نہیں تھے۔

ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ نواز شریف چاہتے تھے کہ عمران خان مکمل طور پر ’ایکسپوز‘ ہو جائیں اور عوام کو پتا چلے کہ یہ بطور وزیراعظم نااہل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے نواز شریف کی رضامندی سے متعلق بتایا کہ ’اب عوام کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ سگنل پر گاڑی رکے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس حکومت سے جان چھڑوائیں۔ نواز شریف پہلے بھی سمجھتے تھے کہ اس حکومت کو مدت پوری کرنے دی تو ملک کا نقصان ہوگا مگر اب وہ قائل ہو گئے ہیں کہ مزید تباہی عوام اور ملک دونوں کے بدترین حالات پیدا کر دے گی۔‘

پی پی پی

،تصویر کا ذریعہPPP

تحریک عدم اعتماد کے بیچ سیاست میں فوجی مداخلت کے الزامات

مسلم لیگ ن کے ہی ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کا سب سے بڑا خوف آئندہ انتخابات سے پہلے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ عمران خان کے ہاتھ میں ہونا ہے۔

’ہمیں یقین ہے کہ عمران خان وزیراعظم رہے تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہی آرمی چیف بنیں گے۔ یہ وزیراعظم کا اختیار ہے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں ہم آئندہ الیکشن نہیں جیت پائیں گے اور ہم صرف دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔‘

خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے حال ہی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور اس وقت پشاور کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت کے بعض اراکین کو پشاور سے کالز کی جا رہی ہیں۔

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے تصدیق کی اور کہا کہ انھیں اس معاملے پر تشویش ہے۔ ’ہمارے چند لوگوں سے رابطے کیے گئے ہیں اور انھیں روکا گیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہ دیں۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ معاملہ میڈیا پر لایا جائے گا۔‘

اپوزیشن کے ایک اور رہنما، جو بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں، نے یہ اشارہ بھی دیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگر موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ آتا ہے تو وہ اس وقت دیکھا جائے گا: ’ہم نے تو نواز شریف کو بھی کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو ایکسٹینشن دے دیں۔ انھوں نے نہیں دی تو اب دیکھیں قانون میں ہی ترمیم کر دی گئی۔ ترمیم ہونا ایک غلط اقدام تھا۔‘

اسی سوال کا جواب شاہد خاقان عباسی نے کچھ ان الفاظ میں دیا کہ ’جب حکومت آئے گی تو فیصلہ کرے گی کہ ایکسٹینشن دینی ہے یا نہیں دینی۔ وہ (فوج) چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ فوج کا فیصلہ ہوتا ہے کہ ایکسٹیشن لینی ہے یا نہیں۔ حالات دیکھ کر اس وقت وزیراعظم فیصلہ کرے گا۔‘

خیال رہے کہ موجودہ آرمی چیف رواں برس نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم نئی ترمیم کے تحت وہ اب بھی ایک ایکسٹیشن لے سکتے ہیں۔ ان کی ایکسٹیشن کی صورت میں موجودہ سینیئر ترین جنرلز آئندہ برس نئے چیف کی تعیناتی سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔

تو کیا اپوزیشن کی مزاحمت اب مفاہمت میں بدل رہی ہے؟

یہ ایک مشکل سوال ہے اور فلور آف دی ہاؤس پر نمبرز کا کھیل کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ فی الحال اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے اپنے دائروں میں خاصے پراعتماد نظر آتے ہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ابھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات میں شدت اب بھی قائم ہیں۔

اس طرح کے سیاسی معاملات کا ’تجربہ‘ رکھنے والے ایک سینیئر سابق فوجی افسر کے بقول ’اس سے انکار نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک حقیقت ہے اور کئی سیاستدان خود اپنے ساتھی پارلیمنٹرینز کی بجائے ریاستی حمایت پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آج کیا چوائس موجود ہے؟ کیا وہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی طرف جائیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ خود پی ٹی آئی میں ہی عمران خان کا متبادل ڈھونڈ رہے ہوں!‘