اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کی نسل کی بنیاد پر پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کی شکایات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کر دیا

    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبا کی نسل کی بنیاد پر پروفائلنگ، جبری گمشدگیوں اور ریاستی اداروں کے عدم تعاون جیسی شکایات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

یہ حکم اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قائد اعظم یونیورسٹی کے لاپتہ طالبعلم کی بازیابی اور بلوچ طلبا کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران دیا گیا۔

درخواست گزار کی طرف سے ایمان حاضر مزاری ایڈووکیٹ جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ اور ہراساں کرنے کی شکایات دور کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکریٹری داخلہ ایسا طریقہ کار (میکنیزم) ترتیب دیں کہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اُس کو روکا جائے۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو بلوچ طلبا کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور نسل کی بنیاد پر طلبا کی پروفائلنگ سے متعلق شکایات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

ایمان مزاری نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ گذشتہ دنوں ایک بلوچ طالبعلم ڈاکٹر دلدار بلوچ کو کراچی جبکہ ایک بلوچ طالبعلم کو پنجاب یونیورسٹی سے اٹھایا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسے لگتا ہے حکومت بلوچ سٹوڈنٹس کے حوالے سے معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ ایچ ای سی کو تمام یونیورسٹیز کو نوٹس جاری کرنا چاہیے تاکہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ حقیقی ایشوز ہیں لیکن گذشتہ حکومت نے بھی اِن کو نظر انداز کیا۔ 'طلبا کی نسلی پروفالنگ کیوں ہو رہی ہے؟ پھر تو وزارت انسانی حقوق کو بند کر دیں۔ یہ بچے ملک کا مستقل ہیں۔ کیا عدالتیں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر لیں؟ ہم بالکل ایسا نہیں کریں گے۔'

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کیا کابینہ کو معلوم نہیں ہوتا ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں وہ کل اُن (طلبا) کے پاس نہیں جا رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتہ؟ جب بھی کوئی حکومت میں نہیں ہوتا اس کی باتیں کچھ اور ہوتی ہیں حکومت میں آ کر سب بھول جاتے ہیں۔' چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمہوری سوسائٹی میں یہ سیاسی لیڈرشپ کا کام ہے وہ اس کا حل نکالے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا آئین کے مطابق اس سب کا کون ذمہ دار ہے؟ ایمان مزاری نے کہا چیف ایگزیکٹیو اور متعلقہ ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا نئی حکومت آئی ہے، وزیر اعظم نے بلوچستان کا وزٹ بھی کیا ہے۔ 'ابھی اٹارنی جنرل نہیں ہیں، مجھے ہدایات لینے دیں۔'

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے 'یہ مت کہا کریں یہ ریاست کمزور ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال ہے تو اس سے بچے کیوں متاثر ہوں۔'

عدالت نے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ اور گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہائے کمیشن ارکان کے نام تجویز کرنے کا کہا جس پر درخواست گزار نے چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی، افراسیاب خٹک، سمیع الدین بلوچ اور ڈاکٹر عبدالحمید نیر کے نام تجویز کیے۔

تاہم عدالتی حکمنامے میں اس کمیشن کی تشکیل کچھ ہے: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی (کنوینیئر)، جب کہ اس کے ممبران میں اراکین پارلیمان بشمول افراسیاب خٹک، اسد عمر، رضا ربانی، کامران مرتضی، مشاہد حسین سید شامل ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل اور مختلف وزارتوں کے نمائندے بھی اس میں شامل ہیں۔

یہ معاملہ عدالت تک کیسے پہنچا؟

واضح رہے کہ رواں برس یکم مارچ کو قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا اپنے ساتھی عبدالحفیظ بلوچ کی بلوچستان سے مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے جب پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا جس سے متعدد طلبا زخمی ہوئے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او محمد شبیر کی مدعیت میں درج کیا جس میں کہا گیا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا شاہ قمر بلوچ جو کہ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے صدر ہیں، ان کی ایما پر پریس کلب کے باہر اکھٹے ہوئے اور وہ مظاہرہ کر رہے تھے۔ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس کی جانب سے طلبا کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

اس واقعے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو بلوچ طلبا کے خلاف درج مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا ہے اور عدالت کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی طور پر بھی غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، ان میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کے علاوہ صحافی اور بلاگر اسد طور بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی طرف سے اس مقدمے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گذشتہ سماعت پر ریمارکس دیے تھے کہ بلوچ سٹوڈنٹس کو سننا چاہیے اور ان کی آواز دبانے والوں کے خلاف بغاوت کے پرچے ہونے چاہییں۔