عبدالحفیظ بلوچ: قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم خضدار سے مبینہ طور پر لاپتہ، خاندان کا جبری گمشدگی کا الزام

    • مصنف, محمد کاظم
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی حاجی محمد حسن کے چھوٹے بیٹے عبدالحفیظ منگل کے روز سے خضدار شہر سے مبینہ طور پر لاپتہ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ خضدار کے ایک تعلیمی ادارے میں شام کو بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ مسلح نقاب پوش افراد اُنھیں کلاس روم سے اٹھا کر لے گئے۔

عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے۔

وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس میں ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔

خضدار پولیس کے مطابق عبدالحفیظ کی مبینہ گمشدگی کے حوالے سے ان کے رشتے داروں نے مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی ہے جس پر کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

مبینہ گمشدگی کیسے ہوئی؟

عبدالحفیظ کے والد حاجی محمد حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بیٹے عبدالحفیظ چھٹیوں پر جنوری کے آخری ہفتے میں اسلام آباد سے خضدار آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ کو تعلیم سے بہت لگاؤ تھا اس لیے چھٹیوں کے دوران بھی انھوں نے درس و تدریس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو مفت پڑھانے جاتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ آٹھ فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک سرف گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے۔

’ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے سے زبردستی اپنے ساتھ نامعلوم مقام پر لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب اکیڈمی کے لوگوں نے اس واقعے کے بارے میں انھیں اطلاع دی تو انھوں نے اپنے طور پر ان کا پتا لگانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن انھیں ان کا پتہ لگانے میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔

انھوں نے کہا کہ مایوسی کے بعد انھوں نے سٹی پولیس سٹیشن خضدار میں ان کی گمشدگی کے حوالے سے درخواست دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کسی منفی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے اور ان کی توجہ ہر وقت اپنی پڑھائی کی جانب ہوتی تھی۔

’عبدالحفیظ چاہتے تھے کہ انھوں نے جو علم حاصل کیا ہے وہ دوسروں تک پہنچائیں، یہی وجہ ہے کہ وہ شام کو بچوں کو پڑھانے کے لیے جاتے رہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بیٹے کی گمشدگی سے اُن کا خاندان اذیت ناک صورتحال سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اس لیے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے بیٹے کو کیوں لاپتہ کیا گیا۔

حکام کا کیا کہنا ہے؟

ڈپٹی کمشنر خضدار عبدالقدوس اچکزئی نے اس واقعے پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ پولیس کے زیر تفتیش ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایس ایس پی خضدار اس کے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔

رابطہ کرنے پر خضدار سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد افضل نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ حفیظ بلوچ کی گمشدگی سے متعلق ان کے رشتے داروں نے پولیس سٹیشن میں درخواست دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے رشتے داروں نے وقوعہ کے فوراً بعد رپورٹ درج نہیں کروائی تھی بلکہ اپنے طور پر ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ انھوں نے 24 گھنٹے کے بعد بدھ کو حفیظ کی گمشدگی کی درخواست دی ہے اور درخواست وصول کر کے ضابطے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر عبدالحفیظ کی بازیابی کا مطالبہ

عبدالحفیظ کی گمشدگی کا واقعہ منگل اور بدھ کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا اور صارفین اُن کی بازیابی اور رہائی کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔

جلیل بلوچ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بلوچستان کا ایک روشن مستقبل آج غیر قانونی حراست میں۔ سول سوسائٹی سے درخواست ہے کہ وہ حفیظ بلوچ کی فوری بازیابی کے آواز بلند کریں۔‘

ایک اور صارف اعجاز بابا نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ہمارے بدترین ادوار میں سے ایک ہے کہ ہمارے دوست دن دیہاڑے لاپتہ ہورہے ہیں لیکن ان کا سراغ نہیں ملتا۔‘ ایک اور ٹویٹ میں اُنھوں نے لکھا کہ ہمارے پاس کتابوں سے زیادہ لاپتہ افراد کے چارٹ ہیں۔

فرمان بلوچ نے بھی ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبعلموں کی جگہ یونیورسٹیاں ہیں نہ کہ کسی الزام کے بغیر ٹارچر سیل۔‘