عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد: وزیرِ اعظم کو ہٹانے پر اپوزیشن متفق، آگے کے لائحہ عمل پر عدم اتفاق برقرار

عمران خان

،تصویر کا ذریعہGovernment of Pakistan

    • مصنف, عمر دراز ننگیانہ
    • عہدہ, بی بی سی اردو لاہور

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں اگلے چند روز میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کرنے پر متفق ہو گئی ہیں تاہم تاحال یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ یہ تحریک کون اور کب پیش کرے گا۔

تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو کیا اس کے بعد نئے انتخابات ہوں گے؟

متحدہ حزبِ اختلاف کی تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل اور ممبر قومی اسمبلی احسن اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حزبِ اختلاف کی تمام بڑی جماعتوں کے درمیان ’اب اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک وزیرِاعظم کے خلاف لائی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ بھی زیرِ غور تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد پہلے سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف لائی جائے اور پھر وزیرِ اعظم کے خلاف تاہم اب اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ تحریک عدم اعتماد خود وزیرِ اعظم کے خلاف لائی جائے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ملک کو اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے یکجہتی اور استحکام کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جس اتحاد کی ضرورت ہے وزیرِ اعظم وہ بنانے میں ناکام رہے ہیں، وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جلد ہی پیش کر دی جائے گی۔ ’ہماری تیاری مکمل ہے۔ تحریک 48 نہیں تو 72 گھنٹے میں پیش ہو جائے گی۔‘

پی ڈی ایم

،تصویر کا ذریعہPML-N

اس سے قبل مقامی ذرائع ابلاغ میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ’آئندہ 48 گھنٹے اہم ہیں جن میں خوشخبری سامنے آئے گی۔‘

تاہم پی ڈی ایم کے سربراہم مولانا فضل الرحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صدر آصف علی زرداری کے درمیان جمعرات کی شام ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے ٹیلی فون کے ذریعے ن لیگ کے قائد نواز شریف سے بھی مشاورت کی۔

تاہم تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے حتمی تاریخ کا تعین نہ ہو سکا۔ ملاقات کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تاریخ کا تعین جلد کر لیا جائے گا۔

’تحریکِ عدم اعتماد کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ یہ فیصلہ ہو چکا کہ تحریک وزیرِ اعظم کے خلاف لائی جائے گی۔ اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔‘

’یہ جیالوں کی کامیابی ہے۔۔۔اپوزیشن اب عدم اعتماد پر متفق ہے‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمیشہ ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی کا آئیڈیا تھا کہ وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے۔ باقی (حزبِ اختلاف) کی جماعتیں اب اس سے متفق ہوئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پہلے ہی وزیرِ اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے پانچ دن کا وقت دے چکے ہیں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس وقت ایک عوامی مارچ کی قیادت کر رہے ہیں جو جمعرات کی شب صوبہ پنجاب کے شہر ملتان پہنچ چکا تھا۔

پی پی پی

،تصویر کا ذریعہPPP

عوامی مارچ کے دوران ایک مقام پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے وزیرِ اعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے پانچ دن کی مہلت دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یا تو خود ہی مستعفی ہو جاؤ یا اسمبلی توڑ کر ہمارا مقابلہ کرو ورنہ پانچ روز میں اسلام آباد پہنچ کر آپ کا بندوبست کریں گے۔‘

لودھراں کے مقام پر خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’یہ جیالوں کی کامیابی ہے کہ اپوزیشن اب عدم اعتماد پر متفق ہے۔ ہمارا جمہوری اختیار عدم اعتماد ہے۔‘

عدم اعتماد کی تحریک کے طریقہ کار کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل اور رکنِ قومی اسمبلی احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ تحریک پیش کرنے کے لیے حزبِ اختلاف قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست دے گی۔ اجلاس 14 روز میں طلب ہو گا اور اس کے بعد تحریک پر کارروائی سات روز کے اندر مکمل ہونی ہوتی ہے۔

اگر تحریک کامیاب ہوتی ہے تو کیا ہو گا؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر حزبِ اختلاف وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کامیاب ہو جاتی ہے تو انھیں اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا۔

اس کے بعد آئین کے مطابق صدرِ پاکستان قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔

’اس جماعت کو 172 ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنی ہو گی تا کہ وہ حکومت بنا سکے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتی تو صدر تیسری جماعت کو دعوت دے سکتے ہیں۔‘

احمد بلال محبوب کے مطابق آئین کے مطابق صدر اس دوران ہٹائے گئے وزیرِ اعظم کو اس وقت تک کام جاری رکھنے کا کہہ سکتے ہیں جب تک نیا وزیرِ اعظم منتخب نہیں ہو جاتا تاہم اس دوران وہ وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

’ایک مرتبہ جب اکثریت حاصل کرنے کے بعد دوسرا وزیرِ اعظم منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر دے جس کے بعد نئے انتخابات نگران حکومت کے تحت ہوں گے۔‘

آئین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور ہو جائے اور کوئی بھی دوسری جماعت یا امیدوار واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو صدر اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نگراں حکومت نئے انتخابات کروائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا حزبِ اختلاف کی جماعتیں فوری انتخابات چاہتی ہے؟

اس حوالے سے پی ڈی ایم یا حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے کسی متفقہ یا حتمی لائحہ عمل کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔ بعض جماعتوں کا خیال ہے کہ نئے انتخابات سے قبل پاکستان میں انتخابی اصلاحات کرنی ضروری ہیں۔

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد فوری نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔

پی پی پی

،تصویر کا ذریعہPPP

’اس کے لیے انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہو گی جو کوئی بھی نگران حکومت دو ہفتے کے اندر کر سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں صرف ضرورت ہے کہ ریاستی ڈھانچہ غیر جانبدار رہے۔ حالیہ کینٹونمنٹ بورڈ یا بلدیاتی انتخابات میں ہم نے دیکھا کے ریاستی ڈھانچہ غیر جانبدار تھا تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘

تاہم دوسری جانب پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی ترجیح ہو گی کہ نئے انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات مکمل کر لی جائیں۔

’ہماری ترجیح ہو گی کہ نئے انتخابات کروانے سے پہلے ملک میں انتخابی اصلاحات کر لی جائیں تا کہ یہ نہ ہو کہ ایک مرتبہ پھر انتخابات کی قانونی حیثیت یا جائز ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات کہ اس عمل میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

’اگر فون کالز نہ آئیں تو لوگ ہمارے ساتھ رہیں گے‘

ماضی میں متحدہ حزبِ اختلاف ایک مرتبہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا چکی ہے تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔

وزیرِ اعظم کے خلاف حالیہ ممکنہ تحریک کی تجویز کے بعد سے حزبِ اختلاف کے رہنما آپس میں بھی مشاورت کرتے رہے ہیں اور حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ بھی انھیں حکومتی جماعت کے کئی ممبران کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ تاہم تحریکِ عدم اعتماد کے پیش کیے جانے سے لے کر اس پر کارروائی ہونے کے درمیان کافی دن ہوں گے۔

کیا حزبِ اختلاف آخر تک یہ حمایت قائم رکھ پائے گی؟ مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’اگر لوگوں کو فون کالز نہ آئیں تو حمایت ہمارے ساتھ رہے گی۔ پچھلی مرتبہ تو لوگوں کو فون کالز آ گئی تھیں۔‘

غیر مقبول حکومت کے ساتھ کوئی نہیں رہنا چاہے گا

حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے حزبِ اختلاف کو تاحال کوئی واضح اشارہ نہیں دیا گیا کہ وہ حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ حال ہی میں خود وزیرِ اعظم سمیت حکومتی اراکین نے بھی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان

،تصویر کا ذریعہPM Office

تاہم احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں نے تو حکومت کو بھی کوئی واضح یقین دہانی نہیں کروائی۔ ان کے خیال میں ’حکومت کے اتحادی بھی اب حزبِ اختلاف کا ساتھ دیں گے کیونکہ یہ حکومت عوام میں مقبولیت کھو چکی ہے اور ایسی حکومت کے ساتھ کوئی بھی نہیں رہنا چاہے گا۔‘

احسن اقبال کے خیال میں اتحادی جماعتوں کے لیے ایسا کرنے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ’وہ ایک غیر مقبول حکومت سے خود کو الگ کر کے آئندہ انتخابات میں اپنے لیے مواقع پیدا کر سکیں گے۔‘