کورونا وائرس: پاکستان میں وبا کی ’دوسری لہر‘، تین ماہ میں مصدقہ متاثرین کی سب سے بڑی یومیہ تعداد

،تصویر کا ذریعہEPA
پاکستان میں حکام کی جانب سے حالیہ دنوں کے دوران کورونا وائرس کی دوسری لہر آنے کے خدشے کا بارہا اظہار کیا گیا ہے اور اب اعداد و شمار بھی بظاہر ان خدشات کی تصدیق کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق پاکستان میں گذشتہ روز (جمعرات) 1078 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ 20 افراد اس وبا کے ہاتھوں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ لگ بھگ تین ماہ کے وقفے کے بعد پاکستان میں یومیہ متاثرین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کی ہے۔ آخری مرتبہ 29 جولائی کو یومیہ متاثرین کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی تاہم اس کے بعد گذشتہ تین ماہ کے دوران یومیہ متاثرین ایک ہزار سے کم ہی ہوتے تھے۔
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام کے صحت حکام نے آگاہ کیا ہے کہ گذشتہ روز کیے گئے سوا پانچ ہزار ٹیسٹ میں سے 140 کیسز مثبت آئے ہیں اور یہاں مثبت کیسز کی شرح 2.6 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پاکستان میں اس وقت کورونا کے کل 11 ہزار 864 مصدقہ متاثرین زیر علاج ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 11504 سندھ میں جبکہ پنجاب میں 11432، خیبر پختونخوا میں 3211، اسلام آباد میں 5229، بلوچستان میں 603، گلگت بلتستان میں 355 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مصدقہ متاثرین کی تعداد 599 ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
’دوسری لہر‘
گذشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان میں 70 دن کے وقفے کے بعد کورونا وائرس کے نئے متاثرین کی شرح اب تین فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ہلاکتوں میں بتدریج اضافے کے بعد حکام کی جانب سے یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ پاکستان وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔
نئے مریضوں میں تین فیصد کی شرح کا مطلب یہ ہے کہ ہر 100 مشتبہ کیسز میں سے تین کیسز مثبت آ رہے ہیں۔
ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پیشِ نظر ملک میں اس عالمی وبا سے نمٹنے والے قومی ادارے این سی او سی نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر کے ایسے شہر جہاں کیسز مثبت آنے کی شرح دو فیصد سے زیادہ ہے وہاں عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی ہو گا۔
وفاقی وزیر اسد عمر کا یہ بھی کہنا تھا اگرچہ این سی او سی نے زیادہ خطرے والی عوامی سرگرمیوں پر پابندیاں سخت کر دی ہیں تاہم بیماری کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کو صرف اسی صورت میں قابو کیا جا سکتا ہے جب لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

،تصویر کا ذریعہTWITTER
گذشتہ روز این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ پابندیوں کا اطلاق ایسے علاقوں پر ہو گا جہاں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہاں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے تحت تمام کاروباری سرگرمیاں جن میں ریستوران، مارکیٹ، شاپنگ مال، شادی ہال وغیرہ رات دس بجے اور تفریحی مقامی شام چھ بجے بند کیے جائیں گے۔
تاہم ہسپتال، کلینک اور میڈیکل سٹورز پر ان پابندیوں کا اطلاق نہیں ہو گا۔
جن شہروں میں نئی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں ان میں کراچی، حیدرآباد، ملتان، لاہور،اسلام آباد، راولپنڈی، گلگت، مظفرآباد، میرپور، پشاور اور کوئٹہ شامل ہیں۔
ادھر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے یعنی پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی۔ اس کے تحت عوامی مقامات پر ماسک نہ پہننے والوں کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
حکومت پنجاب کاتجارتی سرگرمیوں کے اوقات کار کے حوالے سے نوٹیفیکیشن
دوسری جانب دو روز قبل کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی بڑھتی تعداد اور دوسری لہر کے خدشے کے پیشِ نظر حکومت پنجاب نے تمام تجارتی سرگرمیاں اور ادارے رات 10بجے بند کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق:
- تمام میڈیکل سروسز،فارمیسیز، میڈیکل سٹورز، ٹائر پنکچر شاپس، پھلوں اور سبزیوں کی دوکانیں، تندور، آٹا چکیاں، پوسٹل /کورئیرسروسز 24 گھنٹے کھلے رہیں گے
- ڈرائیور ہوٹل، پیٹرول پمپس، آئل ڈپو، ایل پی جی شاپس اور فلنگ پلانٹس، زرعی آلات ورکشاپس، سپئرپارٹس شاپس،پرنٹنگ پریس بھی مسلسل کام جاری رکھ سکیں گے۔
- کال سنٹرز (50 فیصد عملے کے ساتھ) اور ریسٹورنٹس سے ٹیک اوے یا ہوم ڈیلیوری سروسز 24گھنٹے کام کر سکیں گے
- تفریحی اور پبلک پارکس صبح 7 بجے سے شام 6بجے تک کھلے رہیں گے
- تمام صنعتی سرگرمیاں اور ادارے اس نوٹیفیکیشن سے مستشنٰی اپنا کام پہلے کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق جاری رکھ سکیں گے
- اس نوٹیفیکیشن کا اطلاق فوری طور پر لاہور، ملتان اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے علاقائی حدود پر ہوگا
رواں ہفتے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی بظاہر دوسری لہر شروع ہو چکی ہے۔ روزانہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور جن اضلاع میں کیسز زیادہ ہیں وہاں کچھ پابندیوں کے لیے غور کیا جا رہا ہے اور کمرشل سرگرمیوں کے اوقات کار میں کمی بھی زیر غور ہے۔













