سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش، صدر پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹا دیا

،تصویر کا ذریعہIHC
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
جمعرات کو پاکستان کی وزارت قانون و انصاف نے جسٹس شوکت عزیز صدیق کی برطرفی کا نوٹیفکیش جاری کیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر اُنھیں ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
جمعرات کو ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کی جانے والی سفارشات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی رائے دی۔
اس کے مطابق ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی سنہ2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی ادارروں کے خلاف جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے وہ ججز کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
دوسری جانب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے اپنی معزولی کی سفارش پر کہا کہ ان کے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں۔
انھوں نے اس فیصلے پر ایک بیان میں کہا: ’تقریباً تین سال پہلے سرکاری رہائش گاہ کی مبینہ آرائش کے نام پہ شروع ہونے والے ایک بے بنیاد ریفرنس سے پوری کوشش کے باوجود جب کچھ نہ ملا تو ایک بار ایسوسی ایشن سے میرے خطاب کو جواز بنا لیا گیا جس کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے مطالبے اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا نہ ہی میری تقریر میں بیان کیے گئے حقائق کو جانچنے کے لیے کوئی کمیشن بنایا گیا۔‘
جسٹس شوکت صدیقی نے اس تقریر کے دوران فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارے کے اہلکار عدالتوں میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اُنھیں جان بوجھ کر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ بقول ان کے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو خطرہ تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی سابق وزیراعظم کو ریلیف دیں گے۔
جسٹس شوکت صدیقی کی اس تقریر کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے الزامات کی نفی کی گئی تھی۔

،تصویر کا ذریعہSUPREME COURT OF PAKISTAN
وزارت دفاع کی طرف سے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف تحریری طور پر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس تقریر کا از خود نوٹس لیا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی ججز کے بارے میں بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں اس لیے اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے سب سیکشن 6 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف اس تقریر سے متعلق ریفرنس کی صرف ایک ابتدائی سماعت ہوئی تھی اور یہ سماعت بھی ان کیمرہ تھی جس کے بعد اس ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوتی اور صدر مملکت پر یہ لازم ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کریں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی لیکن وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لیکر جائیں گے۔
جسٹس شوکت صدیقی ملکی تاریخ کے دوسرے جج ہیں جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
اس سے پہلے سنہ 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر اُنھیں عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
جسٹس شوکت علی کے خلاف ریفرنس کے سماعت 10 ماہ تک چلی تھی۔
پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کے دیگر تین ججز کے خلاف عرصہ دراز سے ریفرنس زیر التوا ہیں لیکن انھیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجود چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سماعت مکمل کرکے فیصلہ بھی محفوظ کرچکی ہے لیکن ابھی تک وہ فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی اگلے ماہ مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو جائیں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج ہیں تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کی ان سفارشات کے بعد اگر کوئی باہر سے نہ لایا گیا تو جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس ہوں گے۔











