جسٹس شوکت صدیقی کی ججز کی رہائش گاہوں پر ہونے والے اخراجات طلب کرنے کی درخواستیں مسترد

جسٹس شوکت صدیقی

،تصویر کا ذریعہIHC

،تصویر کا کیپشنجسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں پوری طرح ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے اُن کی طرف سے دائر کی جانے والی تین درخواستوں کو مسترد کردیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کا کہنا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ تین روز میں سنایا جائے گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے مختص کردہ بجٹ سے زیادہ پیسے لگوائے تھے۔

اس بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے

جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے دائر کی جانے والی یہ درخواستیں پاکستان کی اعلی عدالتوں کے اُن ججز سے متعلق تھیں جنھوں نے سرکاری رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ اپنے نجی گھروں کو بھی سرکاری رہائش گاہ ڈکلیر کیا ہوا ہے اوروہ سرکاری خزانے سے ان گھروں کی دیکھ بھال کے لیے ہزاروں روپے کا الاؤنس بھی لے رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی نے ان پیسوں کی تفصیلات مانگی تھیں جو اعلی عدلیہ کے جج صاحبان سرکاری خزانے سے لے رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسلام آباد میں جو سرکاری گھر آلاٹ ہوا ہے وہ پہلے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے پاس تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے دائر کی گئی دوسری درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں کہ جب طارق عزیز اس گھر میں رہتے تھے تو شراب کا ٹیبل کس کے کہنے پر بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے سی ڈی اے کے سابق اہلکار علی انور گوپانگ کا سروس ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔

سپریم کورٹ
،تصویر کا کیپشنیہ پہلی مرتبہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس اوپن کورٹ کے طور پر منعقد ہوا ہے

جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے حامد خان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور اُنھوں نے اپنے دلائل میں درخواستوں میں جو دستاویزات مانگی ہیں ان کا ریکارڈ پیش کرنے کو کہا جس پر بینچ کے سربراہ نے پہلے تو ریمارکس دیے کہ عدالتی کارروائی کے دوران کسی موقع پر اگر ضروری ہوا تو ان درخواستوں کو دیکھ لیں گے لیکن جب حامد خان نے اصرار کیا تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے جونئیر جج آصف سعید کھوسہ سے مشاورت کی اور چند سکینڈ کے بعد ان درخواستوں کو مسترد کردیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل نے اصرار کیا کہ اُنھیں فیصلے کی کاپی فراہم کی جائے لیکن چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی کاپی کسی بھی وقت فراہم کی جائے گی۔

حامد خان نے سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی کہ وہ اتنی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اُنھوں نے کہا کہ انصاف صرف ہو نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔

اس دوران جسٹس شوکت صدیقی روسٹم پر آئے اور کہا کہ اُن کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کا رویہ برداشت نہیں کریں گے۔

بینچ کے سربراہ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کلائینٹ کو کہیں کہ وہ بیٹھ جائیں کیونکہ اس طرح کا رویہ ادارے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کا کہ وہ اپنے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والے شخص پر جرح کریں جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ کونسل جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ تین روز میں اس کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

اسی دوران ہائی کورٹ کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم روسٹم پر آئے اور کہا کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان جن میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں کہ خلاف سنہ 2012 سے ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں لیکن اُن کی سماعت نہیں کی جا رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنآئی ایس آئی پر الزام عائد کرنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درخواست کی سماعت کے بنچ سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹا دیا گیا تھا۔

اُنھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان ریفرنس کو بھی سنا جائے جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اُن کا اپنا طریقہ کار ہے اور وہ اس میں کسی کی ڈکٹیشن لینے کے پابند نہیں ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ریفرنس کی سماعت31 جولائی منگل تک ملتوی کردی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی یہ پہلی کارروائی ہے جو اوپن کورٹ میں کی جا رہی ہے۔اس ریفرنس کی اوپن کورٹ میں سماعت کرنے کی درخواست جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خود کی تھی۔

واضح رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام لگایا ہے کہ وہ عدالتی معاملات میں پوری طرح ملوث ہے اور وہ اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درخواست کی سماعت کرنا تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس بینچ سے الگ کرکے چھٹی پر گئے ہوئے جج جسٹس میاں گل اورنگ زیب کو اس بینچ کا حصہ بنا دیا جو عمران خان کے خلاف درخواست کی سماعت کرے گا۔