عمران خان کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کڑے احتساب کا اعلان

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کی نومنتخب قومی اسمبلی میں ہونے والے قائدِ ایوان کے انتخاب میں 176 ووٹ لے کر ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔
عمران خان کے مدمقابل مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
انتخاب کے بعد قائد ایوان سنیچر کو ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے جہاں صدر مملکت ممنون حسین ان سے حلف لیں گے۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
انتخاب کے بعد ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں عمران خان نے کڑے احتساب کا عندیہ دیا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سپیکر اسد قیصر کی جانب سے عمران خان کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی ایوان میں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
مسلم لیگ ن کے اراکین ڈائس اور عمران خان کی نشست کے سامنے جمع ہو کر ’ووٹ کو عزت دو‘ اور شہباز شریف کے حق میں نعرے لگاتے رہے جس کے جواب میں تحریکِ انصاف کے ارکان نے بھی وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگائے۔
اس احتجاج میں پیپلز پارٹی کے ارکان شریک نہیں تھے اور وہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد بلاول بھٹو کی قیادت میں ایوان سے باہر چلے گئے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
عمران خان کا ایوان سے خطاب
عمران خان نے اسی شدید نعرے بازی میں ایوان سے بطور قائدِ ایوان اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ملک لُوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا اور کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 'میں اللہ کا سب سے پہلے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جس نے موقع دیا پاکستان میں تبدیلی لانے کا جس تبدیلی کے لیے یہ قوم 70سال سے انتظار کر رہی تھی۔'
انھوں نے کہا کہ 'قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جو تبدیلی ہم لے کر آئیں گے یہ قوم ترس رہی تھی اس تبدیلی کے لیے ۔ سب سے پہلے کڑا احتساب کرنا ہے۔ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا اور مقروض کیا ایک ایک آدمی کو نہیں چھوڑوں گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'کسی قسم کا این آر او کسی نہیں ملے گا۔ 22 سال کی جدوجہد کے بعد یہاں پہنچا ہوں اور مجھے کسی فوجی آمر نے پالا نہیں تھا۔'
عمران خان کا کہنا تھا کہ 'جنھوں نے ہمارے بچوں کا مستقبل لوٹا میں ایک ایک آدمی کو انصاف کے کٹہرے میں لاؤں گا۔ نہ میرے والد سیاست میں تھا نہ مجھے کسی ملٹری ڈکٹیٹر نے پالا۔ ایک لیڈر تھا جو میرا ہیرو تھا وہ قائداعظم محمد علی جناح تھے۔'
عمران خان نے کہا کہ وہ ہر مہینے دو مرتبہ ایوان میں آ کر سوالوں کے جواب دیں گے۔
منتخب وزیراعظم نے دھاندلی کی شکایت کرنے والوں کو الیکشن کمیشن جانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے ۔ کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ کم نے دھاندلی نہیں کی۔ کسی قسم کی بلیک میلنگ مجھ سے نہ کوئی آج تک کوئی کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔‘
اپنے خطاب کے اختتام پر عمران خان نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے پیغام دیا کہ وہ چاہیں تو دھرنا دے سکتے ہیں جس کے لیے کنٹینر وہ خود مہیا کریں گے۔
عمران خان کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے بھی خطاب کیا جس میں انھوں نے پارلیمانی کمیشن کے ذریعے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کمیشن کے ذریعے دھاندلی میں ملوث افراد کا پتہ چلایا جائے اور یہ کمیشن 30 دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ انھوں نے کہا کہ ’ووٹ کی چوری روکنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم بھی کی جانی چاہیے۔‘
اس بارے میں مزید پڑھیے
شہباز شریف کی تقریر کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انھیں ٹوک دیا اور کہا کہ ’آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے‘۔ جس کے بعد شہباز شریف نے اپنی تقریر ختم کر دی۔
شہباز شریف کے بعد ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ایوان میں دونوں بڑی جماعتوں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن کی جانب سے جس قسم کا رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایوان سپریم ہے اور تمام اداروں کی ماں ہے۔۔۔احتجاج کرنا حق ہے لیکن دو بڑی جماعتوں نے جو تماشہ کیا وہ ناقابل قبول ہے۔‘
بلاول بھٹو نے قبل ازانتخابات اور بعد از انتخابات دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا اور ان کا کہنا تھا کہ ’2018 کے انتخابات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی اور الیکشن مہم کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات بھی کی جائیں۔
عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے بلاول نے کہا کہ پاکستان کے لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
'میں منتخب وزیراعظم کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ کسی مخصوص جماعت کے وزیراعظم نہیں۔ وہ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ہر پاکستانی کے وزیراعظم ہیں۔ وہ ان کے بھی وزیراعظم ہیں جنھیں وہ زندہ لاشیں کہتے ہیں اور ان کے بھی جنھیں گدھا، بکری اور بھیڑ کہتے رہے ہیں۔'
بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت میں عمران خان ماضی کی نفرت انگیز سیاست سے گریز کریں گے، اپنی انتہاپسندی کی سیاست سے گریز کریں گے اور جس عدم برداشت کے کلچر کو آج تک فروغ دیتے آئے ہیں اسے دفن کر کے پورے ملک کو ساتھ لے کر چلیں گے۔














