BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Monday, 23 February, 2004, 14:31 GMT 19:31 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
اسامہ کی تلاش میں خبروں کا بازار گرم
 

 
 
اسامہ میں میڈیا کی توجہ برقرار ہے۔
اسامہ میں میڈیا کی توجہ برقرار ہے۔
ایک مرتبہ پھر بین القوامی ذرائع ابلاغ میں پاک افغان سرحدی علاقے میں اسامہ بن لادن کے خلاف کسی بڑی کاروائی کی افواہیں گردش میں ہیں۔ مغربی اخبارات اس حدت میں نامعلوم پاکستانی فوجی ذرائع کے ذریعے شائع کی جانے والی خبروں سے مسلسل اضافہ کر رہے ہیں لیکن اصل حقائق ہیں کیا۔ کیا واقعی اسامہ کے دن گنے جاچکے ہیں؟

اس موجودہ غیر واضع مبہم صورتحال کے پیدا ہونے میں گزشتہ کچھ عرصے میں کئی جانب سے سامنے آنے والے بیانات اور خبروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں بظاہر پہلی کڑی امریکی فوج کے افغانستان میں ترجمان کے اس بیان سے ملتی ہے جس میں انہوں نے اس امید کا، یا شاید عزم کا، اظہار کیا کہ اسامہ اس برس ان کے ہاتھ لگ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے اس نمبر ایک مفرور کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد امریکی حکام کے جانب سے یہ خبر آئی کہ وہ موسم بہار کی آمد پر پاک افغان سرحد پر اسامہ کی گرفتاری کے لئے ایک بڑا آپریشن شروع کرنے والے ہیں۔ موسم بہار کی یہاں آمد آمد ہے اور اس موقعے پر اس کی گرفتاری کے لئے کسی کاروائی کی توقعات پہلے ہی بڑا دی گئی تھیں۔

پھر مغربی بلخصوص امریکی اور برطانیوی اخبارات نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس سے بھی ذیادہ سنسنی خیز خبریں دینا شروع کر دیں کہ اسامہ کو سرحدی علاقے کے قریب ایک چھوٹے سے علاقے میں گھیر لیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کسی بھی وقت عمل میں آسکتی ہے۔

سونے پر سہاگہ جنوبی وزیرستان کے حکام کی جانب سے وہ بیان ثابت ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان کے مشتبہ افراد کے خلاف کاروائی کسی بھی وقت شروع کی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ مقامی قبائل کے ساتھ جو بات چیت کے ذریعے انہیں مشتبہ افراد کو حوالے کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہ اگر مفید ثابت نہ ہوا تو حکومت کاروائی کا حق رکھتی ہے اور یہ حق کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ نے مزید نیم فوجی دستے بھی طلب کئے ہیں جنہیں مغربی میڈیا میں فوجی تعیناتی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔

قبائلی حکام کی جانب سے کسی نئی کاروائی کا اعلان ان کی جانب سے قبائلیوں کے لئے ایک دھمکی تصور کی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد ان قبائلی پر کئی ہفتوں سے جاری سرکاری دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ علاقے سے اشارے ہیں کہ حکومت کو جو افراد مطلوب ہیں وہ ان کے حوالے نہیں کئے جا رہے۔ لہذا دباؤ بڑھانے کے لئے کبھی کبھی حکومت کی جانب سے دھمکیاں اور کبھی کاروائی کی جاتی ہے۔

ان تمام بیانات نے تمام دنیا میں ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا کی توجو اسامہ کی جانب کھینچ لی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور شاید آخری مرتبہ بھی نہیں۔ نیو یارک کے حملوں کے بعد سے کئی مرتبہ اسامہ کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہوا اور خود ہی ٹھنڈا ہوگیا۔

اس دو سال سے زائد کے عرصے میں اسامہ کہاں کہاں ہو سکتا ہے تقریبا ہر جگے کا ذکر ہوچکا ہے۔ شمال میں چترال سے لے کر پشاور، پھر تورا بورا سے ہوتے ہوئے وزیرستان تک پہنچے اور اب بات سرحد اور قبائلی علاقوں سے ہوکر بلوچستان کے خشک پہاڑوں تک پہنچی ہے۔ اس کے بعد شاید کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا ذکر ابھی باقی ہے۔

بعض لوگ اس صورتحال کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسامہ پہلے ہی امریکی گرفت میں ہیں بس وہ انہیں صدام کی طرح منظرعام پر لانے کے وقت کا تعین نہیں کر پا رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر بش کو آخر اس سال کے اواخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں جیتنا بھی تو ہے۔

 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد