پنجاب نے وفاق سے رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کر دی
حکومتِ پنجاب نے امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کر دی ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان اب سے کچھ دیر قبل عوام کو احتجاج کی کال دے چکے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حمزہ شہباز کے وزارت اعلیٰ کے نوٹیفیکیشن کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے اور گورنر پنجاب کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رات ساڑھے گیارہ بجے تک پرویز الٰہی سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیں۔
حکومتِ پنجاب نے امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کر دی ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان اب سے کچھ دیر قبل عوام کو احتجاج کی کال دے چکے ہیں۔
عمران خان نے لوگوں سے کہا کہ وہ آج رات سے ہی اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
اُنھوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے کا نوٹس لینے کی اپیل کی کیونکہ اُن کے مطابق چوہدری شجاعت حسین ووٹنگ کی ہدایت دینے کے مجاز نہیں تھے۔
عمران خان نے کہا کہ اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں جب تک کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی۔
عمران خان نے کہا کہ آصف علی زرداری نے ہر الیکشن چوری کیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں رات کو پتا چل گیا تھا کہ وہ کیا ’گیم‘ کھیل رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہوتا ہے کہ ووٹ کدھر جائے گا۔ اُنھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ ایوان سے باہر بیٹھے پارٹی سربراہ کا اس میں کردار نہیں ہوتا۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ جو ان لوگوں نے آج کیا ہے، اُنھیں افسوس اس بات پر ہے کہ معیشت کا پہلے ہی برا حال ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ آج پنجاب اسمبلی میں جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ حیران ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اخلاقیات جمہوریت کی بنیاد ہے۔
عمران خان نے اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھی پی ٹی آئی ارکان کو منحرف کرنے میں ان کا کردار تھا۔
پنجاب اسمبلی کے باہر بی بی سی سے خصوصی گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود نے دوست محمد مزاری کے فیصلے کو آئین کے برخلاف اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے آئین کے مطابق ہونے چاہییں۔
اُنھوں نے کہا کہ آئین کی شق 63 اے بی کے تحت پارلیمانی پارٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ ووٹ کس کو دینا ہے، پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ دینا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کی اس حوالے سے جس تشریح کا حوالہ دیا جا رہا ہے تو اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین کے خلاف نہیں جا سکتی بلکہ اُنھوں نے بھی یہی لکھا کہ پارلیمانی پارٹی (سپریم) ہے اور اگر اس کے خلاف کوئی جائے تو پھر پارٹی سربراہ کے پاس معاملہ جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے اعلان کیا ہے کہ اب سے کچھ دیر میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان قوم سے خطاب کریں گے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت کے فیصلے نے پاکستان کو ’فتنے اور فساد‘ سے محفوظ کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ آج اس ملک نے جمہوریت اور رواداری کو فروغ دیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتیں چوہدری شجاعت کے فیصلے کو سراہتی ہیں۔


دوست محمد مزاری نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پارٹی سربراہ کی ہدایت کو فوقیت دیں گے۔
ووٹ مسترد ہونے کے بعد حمزہ شہباز کو اس انتخاب میں برتری حاصل ہو گئی ہے اور وہ بدستور وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہیں گے۔
ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے چوہدری شجاعت کا خط پڑھ کر سنایا۔
اُن کے مطابق خط میں لکھا تھا کہ پارٹی سربراہ کے طور پر میں نے تمام ارکان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔
دوست محمد مزاری نے یہ خط پڑھنے کے بعد رولنگ جاری کی کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے تمام 10 ووٹ خارج کرتے ہیں۔
اس وقت دوست محمد مزاری اور پی ٹی آئی اتحاد کے ارکان کے درمیان بحث جاری ہے۔
آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ اس صورت میں کہ اگر رکن پارلیمان وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دیتا تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے مبینہ طور پر اپنے ارکانِ اسمبلی کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دیں۔
اب یہ بحث جاری ہے کہ کیا وہ بطور پارٹی سربراہ یہ ہدایات دے سکتے ہیں یا پھر آئین کے تحت یہ استحقاق چوہدری پرویز الٰہی کا ہے جو کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
آئین کے اس آرٹیکل میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ ’منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔‘
گر پارٹی کا سربراہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر پارٹی سربراہ اعلامیہ سپیکر کو بھیجے گا اور سپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔
ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں الیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہوگا۔ آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو مذکورہ رکن ’ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔‘
اس شق کی تشریح پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ یہاں پڑھیے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی چوہدری شجاعت کی جانب سے (ق) لیگ کو مبینہ طور پر جاری ہدایات پر اپنا بیان جاری کر دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت کی اس حوالے سے جاری ہدایات کی اہمیت نہیں ہے بلکہ پارلیمانی رہنما ہی ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے جو کہ وہ خود ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
پاکستانی میڈیا میں اس وقت یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ (ق) کے صدر کی حیثیت سے (ق) لیگ کے ارکانِ پنجاب اسمبلی کو پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے منع کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ (ق) لیگ کے پاس پنجاب اسمبلی میں 10 ووٹ ہیں اور وہ اس الیکشن میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
پارلیمانی اُمور کے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق آئین کی شق 63 اے (بی) کے تحت پارٹی سربراہ کسی امیدوار کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا حکم نہیں دے سکتا بلکہ یہ فیصلہ پارلیمانی پارٹی کا ہوتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ چنانچہ یہ ہدایت چوہدری شجاعت نہیں دے سکتے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام

مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی طاہر خلیل سندھو نے اجلاس کی شروعات میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی ارکان شبیر گجر اور زین قریشی پر اعتراض کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ زین قریشی رکنِ قومی اسمبلی تھے اور ان کا ابھی تک استعفیٰ منظور نہیں ہوا، چنانچہ وہ صوبائی رکن اسمبلی نہیں بن سکتے جبکہ شبیر گجر کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ اُن کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا اس لیے وہ ابھی حلف نہیں اٹھا سکتے۔
ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے پی ٹی آئی کے راجہ بشارت سے کہا کہ وہ اس بات کا جواب دیں جس پر اُنھوں نے کہا کہ زین قریشی کے صوبائی رکن اسمبلی بننے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت خود ہی ختم ہو گئی ہے جبکہ شبیر گجر بھی حلف اٹھا چکے ہیں اور وہ انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔
اس کے بعد دوست محمد مزاری نے دونوں اعتراضات خارج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کا حکم دے دیا ہے۔
اب سے کچھ دیر بعد ووٹنگ کروائی جائے گی جبکہ اس وقت نماز کا وقفہ ہے۔
پنجاب اسمبلی میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری کو ایوان کے احاطے اور اطراف میں طلب کر لیا ہے۔



پنجاب اسمبلی کا اجلاس اب شروع ہو چکا ہے اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی ایوان میں پہنچ چکے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر اسمبلی دوست محمد مزاری اس اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) خود سے ہونے والا سلوک بھولی نہیں ہے۔
اپنی ایک ٹویٹ میں اُنھوں نے کہا کہ اب کھیل کے قواعد ہر کسی کے لیے ایک جیسے ہوں گے ورنہ مسلم لیگ (ن) زیادہ بہتر کھیلنا بھی جانتی ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان پنجاب اسمبلی کے احاطے میں موجود ہیں اور نعرے بازی کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ چار بجے کے لیے طے شدہ اجلاس اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے اور پی ٹی آئی نے اسے ’توہینِ عدالت‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔




پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب اسمبلی کا انتخاب اب تک شروع نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے نام لکھے گئے جس خط کا چرچا کیا جا رہا ہے، اس خط کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں اور اس معاملے میں چوہدری شجاعت حسین اہم نہیں ہیں۔
ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے آج کے دن کے کردار کے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ اب تک اُنھیں اجلاس شروع کر دینا چاہیے تھا، کوئی وجہ بتائیں کہ کیوں اتنی تاخیر ہو رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ میں نے پارٹی کو رائے دی ہے کہ ہمیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اُن کے مطابق ایک سے زیادہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔