یہ صفحہ اب مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے
بی بی سی اردو کے نئے لائیو پیج کوریج کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے۔
آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سوشل میڈیا پر موجود وڈیوز میں بیرسٹر گوہر اپنی گرفتاری سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’اگر لیڈر جیل میں ہے تو ہمیں جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمام کارکنوں کو کہہ رہا ہوں پرامن رہیں۔‘
بی بی سی اردو کے نئے لائیو پیج کوریج کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اور شعیب شاہین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے کی ہے۔
اسلام آباد پولیس نے پارلینمٹ ہاؤس کے باہر سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہراور شیر افضل مروت کو گرفتار کیا۔
پی ٹی آئی کراچی کے آفیشل ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے کی گئی پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’بیرسٹر شعیب شاہین کو ان کے آفس سے سادہ لباس میں نامعلوم افراد بدتمیزی کرتے ہوئے اغوا کر کے لے گئے۔‘
سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز موجود ہیں جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شیر افضل مروت کو پارلیمنٹ ہاؤس سے باہراسلام آباد پولیس کی جانب سے گرفتار کرتے دکھایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف نے سنگجانی کے مقام پر جلسہ کیا تھا تاہم این او سی کی ’خلاف ورزی‘ پر اسلام آباد کے ڈی سی نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ قانون کی خلاف ورزی پر منتظمین کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوشل میڈیا پر موجود وڈیوز میں بیرسٹر گوہر اپنی گرفتاری سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’اگر لیڈر جیل میں ہے تو ہمیں جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر یہ برے کام سے نہیں رکتے تو ہم اچھے کاموں سے نہیں رکیں گے۔‘
وڈیو میں بیرسٹر گوہر یہ بھی کہتے سنائی دیے کہ ’تمام کارکنوں کو کہہ رہا ہوں، ہم نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ پرامن رہیں۔‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے۔ یہ حکومت حواس باختہ ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ جو بھی کریں گے ہم اس کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔‘
اسلام آباد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دیتے ہوئے شام چار سے سات بجے تک کا وقت دیا تھا تاہم وقت کی پابندی کی خلاف ورزی پر انتظامیہ نے پولیس کو قانونی کارروائی کرنے اور جلسہ گاہ خالی کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ’پنجاب کے تمام رہنما اپنے آپ کو محفوظ مقامات پر منتقل کریں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’لاہور کا جلسہ 22 ستمبر کو ہو گا اور پچھلے تمام جلسوں کے بھی ریکاڑد توڑ دے گا۔‘
اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ’انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 22 اگست کا جلسہ اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر ملتوی کیا۔‘
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ’سینیٹر اعظم سواتی صبح 7 بجے میرے پاس آئے اور کہا اسٹیبلشمنٹ نے بھیجا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے درخواست کی کہ ملک کی خاطر جلسہ ملتوی کریں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ضمانت دی تھی کہ 8 ستمبر جلسہ میں مکمل سہولت فراہم کریں گے اور اسی پیغام پر پاکستان کی خاطر 22 اگست کا جلسہ ملتوی کیا۔‘
کمرہ عدالت میں موجود صحافی رضوان قاضی کے مطابق عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پیغام دیا گیا تھا ایک جانب کرکٹ میچ دوسری جانب مذہبی جماعتوں کا اسلام آباد میں احتجاج ہے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گارنٹی دی گئی تھی کہ جلسے کے لیے این او سی دیا جائے گا اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’آٹھ ستمبر کو ہونے والے جلسے کو روکنے کے لیے کنٹینرز لگائے گئے اور رکاوٹیں کھڑی کی گئی اور پھر کہا گیا کہ سات بجے جلسہ ختم کریں۔ اگر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو دوبارہ مسلط کیا گیا تو ملکی تاریخ کی بھرپور سٹریٹ موومنٹ شروع کریں گے۔ سپریم کورٹ ایک ہی ادارہ بچا ہے جس کی تباہی کی کوشش ہو رہی ہے۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’راولپنڈی کے کمشنر نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ملے ہوئے تھے۔‘
اُنھوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’نو مئی کی جوڈیشل انکوائری بھی اسی لیے نہیں ہو رہی کیونکہ وہ اُن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘
آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے متعلق بات کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے تحریری طور پر لندن ایگریمنٹ کیا۔ اگریمنٹ تھا کہ پی ٹی آئی کو ختم کیا جائے گا اور ہمارے خلاف کیسز بنائے جائیں گے۔ عاصم منیر کو پیغام بھجوایا تھا کہ مجھے لندن ایگریمنٹ کا معلوم ہے۔ جس پر انھوں نے کہا تھا کہ فکر نہ کریں میں نیوٹرل رہوں گا۔‘
* نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست: ’ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے‘
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’یحیی خان نے کرسی بچانے کے لیے ملک کو تڑوایا ہزاروں لوگوں کو قتل کروایا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ یہ بتاتی ہے میں یہ نہیں کہہ رہا۔ 160 نشستیں جیتنے والی جماعت کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ آج بھی اپنی طاقت بچانے کے لیے وہی کیا جا رہا ہے۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’قانون پاس کر کے خود کو این ار او دیا گیا جمہوریت کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ قانون پاس کر کے اربوں روپے کے کیسز معاف کروائے گئے ہیں۔ پاکستان قرضے لے کر نہیں بچے گا۔ نیب ترامیم کے ذریعے این ار او دے کر منی لانڈرنگ جائز قرار دے دی گئی ہے اب ان کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ آمدنی سرمایہ کاری سے بڑھتی ہے اور تاریخ کی سب سے کم سرمایہ کاری پاکستان میں ہوئی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں قانون کی بالادستی کے بغیر سرمایہ کاری نہیں آ سکتی۔ وہ تمام ممالک خوشحال ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ سنگاپور لاہور سے ادھا ہے اور وہاں 140 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ پاکستان میں قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں تمام اداروں کو ایک جماعت ختم کرنے پر لگا دیا گیا ہے۔‘
سینٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بتایا جائے کہ سارے پنجاب اور اسلام آباد کو کیوں بلاک کیا گیا؟ ہم تو سیاسی لوگ ہیں ہم نو مئی کے پیچھے چُھپ کر سیاست نہیں کرتے۔‘
سینٹ میں اسلام آباد میں جلسے اور جلسوں سے متعلق پاس ہونے والے نئے قانون پر پیر کے روز بحث ہوئی۔
شبلی فراز نے حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ہمت کریں اور خیبر پختونخوا میں آ کر جلسہ کریں ہم آپ کو ساری سہولتیں دیں گے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’پرامن اجتماع کا قانون پی ٹی آئی سے متعلق ہے۔ جس جلد بازی میں قانون پاس کیا گیا وہ ہمارے جلسے کی وجہ سے تھا۔‘
شبلی فراز نے مزید کہا کہ ’حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے بس سارے وسائل عمران خان اور پی ٹی آئی کو قابو کرنے میں لگائے جا رہے ہیں۔‘
قائدِ حزبِ اختلاف شبلی فراز سے قبل پاکستان مُسلم لیگ کے سینٹر عرفان صدیقی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر جلسے جلوس کرنے والوں کا حق ہے تو اسلام آباد کے شہریوں کا بھی حق ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان مُسلم لیگ کے رہنما عرفان صدیقی کی جانب سے ہی اسلام آباد میں جلسے اور جلوسوں سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔
تاہم 5 ستمبر کو سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شدید احتجاج کے دوران اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں پر امن اجتماع و امن عامہ بل 2024 کے اہم نکات کیا ہیں؟
بل میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی یا اجتماع کا کوآرڈینیٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو 7 روز قبل مجلس کی تحریری درخواست دے گا۔ اجتماع کی جائز وجوہات نہ دینے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت نہیں دے گا، جلسے کی اجازت نہ دینے کی تحریری وجوہات دے گا، جلسے کی نامزد مختص کردہ جگہ یا کوئی اور حکومت کا مختص کردہ علاقہ ہوگا۔
بل میں مزید کہ کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت دینے سے قبل امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سکیورٹی کلیئرنس لے گا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مختص علاقے کے علاوہ کہیں جلسے کی اجازت نہیں دے گا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے اجازت نامہ کی قومی سکیورٹی رسک، تشدد کے خدشہ پر ترمیم کر سکتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سکیورٹی زون قرار دے سکتی ہے، جہاں اجتماع یا جلسے کی ممانعت ہو گی۔
بل کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس اجتماع یا جلسے پر پابندی کا اختیار ہو گا اگر وہ پبلک سیفٹی یا قومی سکیورٹی کے لیے رسک ہو، امن و امان کی خرابی کے رسک کی مصدقہ رپورٹ ہو، یا روز مرہ کی سرگرمیاں متاثر کرے، اجتماع پر پابندی کی وجوہات تحریری طور پر دی جائیں گی۔
بل کے مطابق متاثرہ شخص پندرہ روز کے اندر اپیل کر سکتا ہے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو اجتماع یا جلسے کو منتشر کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے، اگر وہ جلسہ امن و امان کو خراب کرے، اگر جلسہ منتشر نہیں کیا جاتا تو پولیس افسر اسے طاقت کے ذریعے منتشر کر سکتا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی جلسے کے ارکان کو گرفتار اور حراست میں لیا جا سکتا ہے، غیر قانونی اسمبلی کے رکن کو 3 سال تک سزا اور جرمانہ ہوگا، اس قانون کے تحت عدالت سے تین سال سزا پانے والے شخص کو دوبارہ جرم دوہرانے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں نئے توشہ خانہ مقدمے کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم کی بحالی کے بعد یہ ریفرنس احتساب عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اس لیے نیب یہ ریفرنس واپس لینا چاہتا ہے۔
جس پر عدالت نے یہ معاملہ سپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں بھجوا دیا ہے۔ ملزمان کے وکلا نے اس عدالتی فیصلے سے پہلے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے ان کے طرف سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستوں کو سنا جائے کیونکہ عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف ایک ہی واقعہ کے دو مقدمات درج نہیں ہوسکتے۔ انھوں نے کہا کہ نیب ترامیم کی بحالی کے بعد عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنتا۔
جس کے بعد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم کی جانے والی عدالت نے ملزمان کے وکلا کو متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی سے ساتھ پیر کے روز جب نیب کی جانب سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف نئے توشہ خانہ ریفرنس واپس لینے کا کہا گیا تو عدالت نے اس پر ریمارکس دیے کہ ’نیب ترامیم کے بعد یہ کیس ایف ائی اے کا بنتا ہے۔ نیب ترامیم کے بعد اب نیب کا دائرہ اختیار اس کیس میں ختم ہو گیا ہے۔‘
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں پر بھی سپیشل جج سینٹرل کی عدالت فیصلہ کرے گی۔ توشہ خانہ ٹو ریفرنس میں بانی پی ٹی ائی اور بشری بی بی کی ضمانت کی درخواستیں اور کیس سپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں کل یعنی بروز منگل سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔‘
واضح رہے کہ توشہ خانہ سے جڑا یہ نیا کیس دراصل نیب کی ایک انکوائری رپورٹ ہے جس میں احتساب کے ادارے کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ نے ’دس قیمتی تحائف خلاف قانون اپنے پاس رکھے اور فروخت کیے۔‘
عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ کا نیا کیس کیا تھا؟
انکوائری رپورٹ میں سات گھڑیاں خلاف قانون لینے اور بیچنے کا الزام تھا۔ نیب کے دعوے کے مطابق نیا کیس دس ’قیمتی‘ تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور بیچنے سے متعلق تھا۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق گراف واچ، رولیکس گھڑیاں، ہیرے اور سونے کے سیٹ کیس کا حصہ تحفے قانون کے مطابق اپنی ملکیت میں لیے بغیر ہی بیچے جاتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق گراف واچ کا قیمتی سیٹ بھی اپنے پاس رکھنے کے بجائے بیچ دیا گیا۔
نیب کی تحقیقات کے مطابق نجی تخمینہ ساز کی ملی بھگت سے گراف واچ کے خریدار کو فائدہ پہنچایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق تخمینہ ساز کا توشہ خانہ سے ای میل آنے سے پہلے ہی گھڑی کی قیمت تین کروڑ کم لگانا ملی بھگت کا ثبوت ہے۔
نیب کے مطابق گراف واچ کی قیمت دس کروڑ نو لاکھ بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ بیس فیصد رقم، دو کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے سرکاری خزانے کو دیے گئے۔
نیب کے مطابق ہر تحفے کو پہلے رپورٹ کرنا اور توشہ خانہ میں جمع کروانا لازم ہے اور صرف تیس ہزار روپے تک کی مالیت کے تحائف مفت اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ایک میٹنگ کے دوران وزیرِقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ حکومت تمام عدالتوں کے چیف جسٹسز کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر رہی ہے لیکن انھوں نے ایکسٹینشن لینے سے انکار کر دیا۔
نئےعدالتی سال کی شروعات کے موقع پر صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں جسٹس منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔
دورانِ گفتگو ایک صحافی نے سوال کیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اگر تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) بھی مدت ملازمت میں توسیع لینے پر متفق ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس میٹنگ میں رانا ثنا اللہ نہیں تھے، وزیر قانون نے کہا تھا کہ تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں مگر ’میں نے کہا باقیوں کی (ایکسٹینشن) کر دیں، میں قبول نہیں کروں گا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ میں کل زندہ رہوں گا یا نہیں۔‘
اس سے قبل نئے عدالتی سال کی شروعات کے موقع پر فُل کورٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ کہتے تھے کہ بینچ کی تشکیل سے پتا چل جاتا تھا کہ فیصلہ کیا ہوگا لیکن ’آج مجھے بھی نہیں پتا ہوتا کہ میرے دائیں بائیں والے ججز کیا فیصلہ دیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ماضی میں ہر جمعرات کو چیف جسٹس کو کازلسٹ منظوری کے لیے بھیجی جاتی تھی لیکن اب کاز لسٹرجسٹرار صاحبہ خود ہی بناتی ہیں۔
گذشتہ مہینے کراچی کے علاقے کارساز میں ایک ٹریفک حادثے میں دو افراد کو گاڑی سے کُچلنے والی ملزمہ نتاشہ کی ’نشے کی حالت‘ میں گاڑی چلانے سے متعلق کیس میں درخواستِ ضمانت مسترد کر دی ہے۔
نتاشہ کی درخواست پر پیر کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرق نے تحریری حکم نامہ جاری کیا اور ضمانت کی استدعا کو مسترد کر دی۔
خیال رہے نتاشہ نے 19 اگست کو تیز رفتار گاڑی سے عمران عارف نامی شہری اور ان کی بیٹی کو کُچل دیا تھا۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کے ورثا نے انھیں معاف کر دیا تھا، جس کے بعد عدالت نے قتل بالسبب کے مقدمے میں انھیں ضمانت دے دی تھی۔
31 اگست کو ملزمہ نتاشہ دانش پر ریاست کی مدعیت میں منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق حادثے کے وقت ملزمہ ’میتھم فیٹامین (آئس) کے نشے کی حالت میں تھی۔‘
پیر کو عدالت کی جانب سے جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمہ کے وکیل امتناع منشیات ایکٹ کے سیکشن 11 سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر سکے اور اس ایکٹ کا اطلاق صرف شراب نوشی نہیں بلکہ دیگر اشیا کے استعمال پر بھی ہوتا ہے۔
عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ وکیلِ صفائی کی جانب سے ملزمہ کی کیمیکل رپورٹ کی شفافیت سے متعلق سوال اُٹھائے گئے تھے، لیکن یہ رپورٹ ماہرین کی رائے پر مبنی ہے۔
عدالتی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ملزمہ اعلیٰ تعلیم کی حامل ہیں اور ایک ایسے ’فرد کی جانب سے بغیر لائسنس لاپرواہی سے نشے کی حالت میں گاڑی چلا نے کے نتیجے میںدو افراد کی ہلاکت افسوسناک اور حیران کن ہے۔‘
گذشتہ رات پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کی مرکزی شاہراہوں پر لگائے گئی رُکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں اور تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں۔
اتوار کی رات اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں پی ٹی آئی کا جلسہ گھنٹوں جاری رہا اور اس دوران سیاسی جماعت کے کارکنان کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ اور پولیس کی جانب سے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا۔
جلسے سے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت متعدد پارٹی رہنماؤں نے خطاب کیا۔
جلسے کے دوران اپنی تقریر میں وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پاکستانی حکومت اور فوج پر سخت تنقید کی۔
علی امین گنڈاپور نے پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے ایک بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کہتے ہیں کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے لیکن ’سیاست تو کر ہی آپ رہے ہیں، کسی اور کو تو چھوڑ نہیں رہے۔‘
انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں شریک ہونے والے صحافیوں پر الزام لگایا کہ وہ پاکستانی فوج کے ترجمان سے سوال نہیں کرتے۔
گذشتہ دنوں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو پاکستانی فوج کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا اور اس ہی وقت سے یہ افواہیں بھی جاری ہیں کہ شاید سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
ایسا ہی بیان وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی جانب سے بھی دیکھنے میں آیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’آج میں دیکھ رہا تھا کہ خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ عمران خان کا ملٹری ٹرائل ہوگا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں کوئی کیس نہیں چلا سکتا۔
علی امین گنڈاپور نے وزیرِ دفاع کو مخاطب کرکے کہا کہ ’کہتے ہیں جنرل فیض نے ریٹائرمنٹ کے بعد (پی ٹی آئی سے) رابطے رکھے۔ جنرل فیص ہمیں جہیز میں ملا تھا، وراثت میں ملا تھا؟ اپنا ادارہ ٹھیک کریں، اپنے جرنیل ٹھیک کریں، اپنے آپ کو ٹھیک کریں۔‘
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد اور بھائی فوج میں تھے اور آج بھی ان کے گھر میں وردیاں موجود ہیں۔
’میں فوج کی وردی سے نہیں ڈرتا، میرے گھر میں وہ وردیاں ہیں، میرے باپ نے جنگیں لڑی ہیں۔ میرے بھائی نے جنگیں لڑی ہیں، اس فوج کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اگر تم نے فوج کو ٹھیک نہ کیا تو فوج کو بھی ہم ٹھیک کریں گے، یہ ہماری فوج ہے۔‘
دورانِ تقریر ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں عمران خان کے وکلا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات ختم ہو چکے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’ایک سے دو ہفتے میں قانونی طور پر اگر عمران خان رہا نہ ہوئے تو پھر عمران خان کو ہم خود رہا کریں گے۔‘
واضح رہے عمران خان تقریباً ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور انھیں اب بھی متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کا اگلا جلسہ لاہور میں ہوگا۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے ایک شہری جہانزیب محمد حسنی کی بازیابی کے لیے اتوار کے روز کوئٹہ شہر میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہونے والا یہ مظاہرہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ کے زیر اہتمام کیا گیا جس میں خواتین بھی شریک تھیں۔
مظاہرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جہانزیب محمد حسنی کے رشتہ داروں اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جہانزیب کو کوئٹہ میں سریاب کے علاقے قمبرانی روڈ سے 3 مئی 2016 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانزیب کی بازیابی کے لیے انھوں نے تمام فورمز سے رجوع کیا لیکن آٹھ سال تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی بازیابی ممکن نہیں ہوئی ہے۔
مظاہرے کے شرکا نے جہانزیب محمد حسنی سمیت بلوچستان سے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خاتون رہنما سمّی دین بلوچ کو کراچی ایئرپورٹ پر بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے۔
وہ اتوار کے روز کراچی سے عمان جارہی تھی جس کے لیے ان کا ویزا تین دن پہلے آیا تھا۔
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سمّی دین نے بتایا کہ وہ عمان میں اپنے خاندان کے کچھ لوگوں کو ملنے جارہی تھی اور ایک ماہ بعد ان کو واپس آنا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی سے ان کی فلائٹ 12 بجے تھی جس کے لیے وہ 9 بجے ایئرپورٹ پہنچیں تو اپنا پاسپورٹ امیگریشن کاؤنٹر پر دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاسپورٹ لینے کے بعد کوئی کارروائی کرنے کی بجائے مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور مجھ سے سوالات پوچھنا شروع کیے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’مجھ سے وہ یہ پوچھتے رہے کہ آپ کیوں جارہی ہیں ۔ آپ کیا کام کرتی ہیں ۔ یہ بھی کہتے رہے کہ آپ کے نام کے ساتھ بہت سارے ایشوز ہیں اور یہ پوچھا کہ یہ ایشوزکیوں آرہے ہیں۔‘
سمّی کا دعویٰ ہے کہ ’جب پاسپورٹ حوالے کرنے میں تاخیر ہوئی تو میں نے کہا کہ میری پرواز نکل رہی ہے اس لیے میرا پاسپورٹ واپس کر دیں تو انھوں نے پاسپورٹ حوالے نہیں کیا۔‘
سمّی دین بلوچ کا دعویٰ ہے کہ جب بہت زیادہ تاخیر ہوئی تو میں نے یہ بات سماجی رابطوں کی میڈیا پر شیئر کی جس کے بعد انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو بیرون ملک جانے نہیں دیں گے کیونکہ محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان نے آپ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا ہے۔
سمی دین نے بتایا کہ بعد میں انھوں نے میرا پاسپورٹ حوالے کیا اور یہ کہا کہ آپ ایئرپورٹ سے باہر جا سکتی ہیں۔
سمّی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین پاکستانی تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ’اب سب کو ماننا ہو گا کہ عمران خان ایک حقیقت ہیں، اور اس حقیقت کو قبول کرنا پڑے گا۔‘
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے سے خطاب کے دوران بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’آج اسلام آباد میں عمران خان کا جذبہ بول رہا ہے۔ یہ 90 کی دہائی نہیں ہے کہ کسی کو مائنس کریں، عمران خان مائنس کی سیاست نہیں ہو سکتی، عمران خان تھے، ہیں اور لیڈر رہیں گے۔‘
بیرسٹر گوہر علی خان نے اپنے خطاب کے دوران الزام عائد کیا کہ ’حکومت جو قانون سازی کرتی ہے اس میں رات کے اندھیرے میں اپنے آپ کو این آر او دیتی ہے۔‘
’آج عدلیہ میں نئی قانون سازی کی جا رہی ہے اور مرضی کے ججز لگائے جا رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جس ملک کا لیڈر کرپٹ ہو وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ آج بلوچستان ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔‘
انھوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حکومت نے آٹھ فروری کو آپ کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا۔ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مرضی کی عدالت بنانا اور مرضی کے جج لگانے کے فیصلے کو نہیں مانیں گے۔‘
عمران خان کے خلاف کوئی دوسرا کیس بنانا قبول نہیں : چیئرمین پی ٹی آئی
انھوں نے کہا کہ ’ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف کوئی دوسرا کیس بنانا قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی دوسری عدالت میں لے جانا منظور ہے۔
’ہم پورے ملک اور جمہوریت کے لیے نکلے ہیں۔ ہم ملک کے اندھیروں کے خلاف نکلے ہیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ اقتدار میں رہنے والے اپنے ملک کے بارے میں سوچیں۔‘
انھوں نے جلسہ گاہ کی جانب آنے والے راستوں کی بندش پر تنقیید کرتے ہوئے کہا کہ راستے بند کرنے کے بجائے راستہ نکالیں اس سے پہلے کہ ملک بند گلی کی جانب جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس جلسے کا چھ ماہ تک انتظار کرتے رہے۔ آج ہر جگہ کنٹینرز تھے لیکن عمران خان کے ٹائیگر یہاں تک پہنچ گئے۔‘
این اور سی دے کر ہمارے راستے روکے گئے: علی امین گنڈاپور
اس موقع پر وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ ’خیبرپختونخوا کے عوام نے طاقت کے زور پر اپنا مینڈیٹ چوری نہیں ہونے دیا۔‘
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’این اور سی دے کر ہمارے راستے روکے گئے بانی پی ٹی آئی جیت چکے اور این آر او دینے والے ہار چکے ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی قیادت میں خیبرپختونخوا سے اسلام آباد جلسے میں شرکت کے لیے ریلی جلسہ گاہ پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد کے داخلی راستے 26 نمبر چونگی پر پی ٹی آٸی کارکنوں کو منتشر کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کچھ دیر قبل اس راستے پر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران حالات کشیدہ ہو گئے تھے جس کے بعد وہاں ایف سی کو بھی طلب کر لیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق 26 نمبر چونگی کے اطراف بجلی بحال کر دی گٸی ہے اور خواتین اور بچوں کو انٹر چینج پیدل کراس کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے آٹھ ستمبر کو جلسے کے لیے تحریک انصاف کو اجازت دیتے ہوئے انھیں شام چار سے سات بجے تک اس اجتماع کو منعقد کرنے کی اجازت دی تھی۔
این اور سی کی خلاف ورزی پر اسلام آباد انتظامیہ نے جلسہ منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔
اسلام آباد کے داخلی راستے پر 26 نمبر چونگی کے مقام پر پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے درمیان کشیدگی کے بعد حکام کی جانب سے ایف سی طلب کر لی گئی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق ایس ایچ او سنگجانی اور علاقہ مجسٹریٹ نے جلسے کی انتظامیہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ جلسہ کا وقت ختم ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا ہے لہٰذا وہ جلسہ ختم کریں۔
خیال رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں جو ریلی آنی تھی وہ تاحال جلسہ گاہ نہیں پہنچ سکی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر لائیو سٹریم میں اس وقت بھی جلسے کو جاری دیکھا جا سکتا ہے جہاں سٹیج پر مختلف رہنما خطاب کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں تحریک انصاف کے ’جلسے کا وقت ختم ہونے‘ پر پولیس اور جلسے میں شرکت کے لیے آنے کے خواہشمند کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر روٹ کی خلاف ورزی کرکے جلسے میں آنے والوں کو 26 نمبر چونگی پر روکنا چاہا جس کے بعد پولیس کے مطابق شرکا نے پولیس پر پتھراو شروع کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے مقررہ وقت پر جلسہ ختم نہ کرنے پر پولیس کو جلسہ گاہ سے منتشر کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور نوٹیفیکیشن میں کہا تھا کہ این او سی کی خلاف ورزی پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
دوری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ کارکنوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کی اطلاعات من گھڑت ہیں۔
بیرسٹر سیف نے الزام عائد کیا کہ اسلام آباد پولیس ’جعلی‘ وفاقی حکومت کے ہاتھوں الہ کار بنی ہوئی ہے اور پولیس اور انتظامیہ پی ٹی آئی کارکنوں کے ساتھ مل کر زیادتی کر رہی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے بیان کے مطابق پتھراو سے ایس ایس پی سیف سٹی اور متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ اور پولیس کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس پرپتھراو کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے جلسے کے شرکا اور مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے تحریک انصاف کا جلسہ وقت پر ختم نہ کرنے پر جلسے کے منتظمین کے خلاف پولیس کو کارروائی کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔
اسلام آباد نے جلسے کے لیے شام سات بجے تک کا وقت مقرر کیا تھا اور اس کے لیے انتظامیہ کے مطابق یاد دہانی بھی کروائی گئی تھی۔
سلام آباد انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کے لیے جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جو چھ ستمبر کو این او سی جاری کیا تھا اس کے مطابق منتظمین کو پر امن طریقے سے ان تمام شرائط پر عمل درآمد کرنا تھا۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق اس این او سی کی شرائط پر عمل درآمد کے لیے جلسے کے دوران شام چھ بجے تحریک انصاف کو وقت کی پابندی سمیت تمام شرائط کی یاد دہانی کروائی گئی۔‘
نوٹیفیکیشن کے مطابق ’منتظمین کو شام سات بجے جلسہ ختم کرنے کا بارہا کیا گیا تاہم ان کی جانب سے اس این ا سی پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ‘
انتظامیہ کے نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ ’این او سی کی خلاف ورزی کر کے قانون شکنی کی گئی ہے اور اس صورت حال کے باعث جلسہ کے مقام پر امن و امان کا خطرہ موجود ہے۔‘
نوٹیفیکیشن کے مطابق ’اس جلسے کو فوری منتشر کرنے کے لیے احکامات جاری کیے جاتے ہیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف اسلام آباد پولیس ایکشن لے گی۔‘
پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر جلسہ اس وقت جاری ہے تاہم اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تحریک انصاف کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ان کے پاس طے شدہ وقت شام سات بجے تک کا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے جلسہ منتظمین کو آگاہ کر دیا ہے کہ این او سی میں جلسے کی اجازت دوپہر چار بجے سے شام سات بجے تک دی گئی ہے اور اس کے ختم ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق مقررہ وقت تک جلسہ ختم نہ کرنا این او سی کی خلاف ورزی تصور ہوگی اور اس پر جلسہ منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد کے جلسے کے لیے کارکنان اور رہنماؤں کا پنڈال میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کو پی ٹی آئی پشاور کے ریجنل صدر ارباب محمد عالم نے بتایا کہ پشاور سمیت دیگر اضلاع سے لوگوں کے قافلے صوابی کے مقام پر اکھٹا ہو کر سنگجانی کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔
جب عزیز اللہ حان نے ان سے سوال کیا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے تو چار سے سات بجے تک کا وقت مقرر کیا ہے تو اس کے جواب میں ارباب عالم نے کہا کہ وہ بروقت پہنچ جائیں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ وقت کی اتنی سختی بھی نہیں کی جاتی۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے کی گئی پوسٹ میں کہا ہے کہ ’خیبرپختونخوا سے نکلے مختلف قافلے صوابی کے مقام پر اکٹھے ہو رہے ہیں۔ جہاں سے تمام قافلے ایک سونامی کی شکل میں وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں سنگجانی جلسہ گاہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔‘
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی کے آج ہونے والے جلسے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں آج تماشہ ہونے جا رہا ہے اس جلسے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کی گئی ہے۔
پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کے ہونے والے جلسے سے متعلق کہا ہے کہ ’آج اسلام آباد میں تماشہ ہونے جا رہا ہے۔ اسلام آباد جلسے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ خیبر پختونخوا کی بد قسمتی ہے کہ انھیں ان جیسے حکمران مل گئے۔ خیبر پختونخوا کے عوام کے مقدر میں شاید جلسے اور جلوس ہی لکھ دیے گئے ہیں۔ اس جلسے میں میوزک چلے گا اور لوگ پھر واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’جلسہ منسوخ کرنے کا ریٹ پانچ ہزار روپے تھا تو آج آنے کا ریٹ پتہ نہیں کیا ہوگا؟‘
ترجمان پنجاب حکومت نے مزید کہا کہ اشتہاری بھی دندناتے پھر رہے ہیں اس سے زیادہ چھوٹ کیا ہوگی۔ سوائے حالات خراب کرنے کے آپ کو ہر چیز کرنے کی اجازت ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں آج ہونے والے جلسے سے قبل اپنے ایک پیغام میں دھرنے کے خدشات کی نفی کرتے ہوئے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ لوگوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔
اپنے وڈیو پیغام میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’کل ہم نے انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا تھا۔ آج میری درخواست ہے کہ پُرامن طریقے سے جلسہ ہونے دیں، یہ جلسہ اپنے اختتام پر منتشر ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہاں نہ دھرنا ہوگا، نہ لانگ مارچ ہو گا۔ براہ مہربانی رکاوٹیں نہ ڈالیں اور لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچنے دیں۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ’آج سنگجانی کی مقام پر تاریخی جلسہ ہونے جارہا ہے، ملک بھر سے قافلے سنگجانی کی طرف رواں دواں ہیں۔ ’ اس وقت مجھے خبر ملی ہے کہ جلسہ گاہ کی طرف آنے والے اسلام آباد کے ہر روڈ کو بند کردیا گیا ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں سنگجانی کے مقام پر اتوار کے روز جلسے کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے تحریک انصاف کے مطابق تیاریاں مکمل ہو گئی ہیں۔
اتوار کی دوپہر سے ہی کارکنان پنڈال میں موجود ہیں تاہم ابھی مرکزی قیادت کی آمد شروع نہیں ہو سکی۔
جلسہ گاہ میں موجود سما نیوز کے ویڈیو جرنلسٹ واجد علی سید نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت کے لیے رات گئے سے ہی کارکنان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور اس وقت پنجاب اور خیبرپختونحوا سے آنے والے کارکنان مختلف ٹولیوں کی صورت میں جلسہ گاہ پہنچ گئے ہیں۔‘
واجد علی کے مطابق ’جلسہ گاہ میں سٹیج تیار کیا جا چکا ہے ۔ کرسیاں بھی لگائی گئی ہیں تاہم اس وقت گرمی کی شدت کے باعث کارکنان اپنی گاڑیوں میں یا سائے والی جگہ پر بیٹھے ہیں۔ پنڈال کو جن مختلف بینرز سے سجایا گیا ہے ان پر عمران خان کی تصاویر کے ساتھ ان کی رہائی کے نعرے درج ہیں۔‘
ان کے مطابق سنگجانی کے مقام پر جلسہ گاہ کے باہر پولیس اور سکیورٹی اہلکار موجود ہیں۔ جس سڑک سے شرکا کو انتظامیہ نے آنے کی اجازت دی ہے وہاں بھی پولیس اہلکار موجود ہیں۔ جلسہ گاہ کے اندر آنے کے لیے سائیڈ پر واک تھرو گیٹس بھی موجود ہیں تاہم اس کو فی الحال فالو نہیں کیا جا رہا۔
’جلسہ گاہ کے اطراف انٹرنیٹ سروس موجود نہیں‘
اسلام آباد میں جہاں انٹرنیٹ کے سست رفتار ہونے کی شکایت سوشل میڈیا صارفیین کرتے دکھائی دیے وہیں جلسہ گاہ کے اطراف انٹرنیٹ بند ہونے کی تصدیق بھی واجد علی سید نے کی۔
بی بی سی کے سوال پر انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’اسلام آباد سے جو راستہ جلسہ گاہ آنے کے لیے کھلا رکھا گیا ہے اس میں کنٹینر ترچھے انداز میں لگائے گئے ہیں جن سے بڑی گاڑیاں مشکل سے گزر رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’صوابی انٹرچینج پر تحریک انصاف کی جانب سے استقبالی کیمپ بھی لگا دیا گیا ہے جہاں سرکاری مشینری پہنچا دی گئی ہے تاکہ رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔‘
یاد رہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے جلسے کی اجازت کے این او سی میں شرکا کے لیے پورا روڈ میپ جاری کیا ہے جس کے تحت اسلام آباد سے جلسے گاہ آنے والے شہری مارگلہ ایوینیو استعمال کر سکتے ہیں جبکہ خیبرپختونحوا سے جلسے میں آنے والے بذریعہ موٹر وے داخل ہوں گے۔
این او سی کے مطابق جلسے کا وقت شہہ پہر چار بجے سے شام سات بجے تک دیا گیا ہے۔
جلسہ گاہ کے اطراف میں موجود تمام ہوٹلز بند کروا دیے گئے ہیں اور جلسہ گاہ کے اردگرد کی تمام دکانیں بھی بند کروا دی گئی ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو رہائش، کھانا یا کوئی اور سہولت فراہم نہ کی جائے۔
جلسے سے قبل دارالحکومت کے متعدد راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے سنگجانی کے مقام پر کنٹینرز رکھ کر جی ٹی روڈ کو دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے۔
اس جلسے سے کچھ فاصلے پر واقع موٹر وے 26 نمبر چونگی پر اسلام آباد کے داخلی راستے بند کر دیے گئے۔اس کے علاوہ ایکسپریس وے کھنہ پل کے مقام پر کنٹینر لگا دیے گئے جبکہ مری روڈ کو فیض آباد کے مقام پر کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔