|
’کشمیر میں آٹھ لاکھ معذور افراد ہیں!‘ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی ضلع کپواڑہ کے رہنے والے غلام محمد لون پانچ سال کی عمر میں پولیو کی وجہ سے معذور ہو گئے تھے۔ تب سے ان کی زندگی ہاتھ سے چلنے والی وہیل چئر کے سہارے چل رہی ہے۔ پوری ریاست میں جسمانی طور پر معذور لاکھوں افراد کی نمائندہ انجمن کی صدارتی مصروفیات سے لیکر گھریلو سودا سلف لانے اور ایک مقامی روزنامہ کے لیئے رپورٹنگ کر نے تک کا سارا کام وہ اسی ٹرائیسائیکل وہیل چئر کے ذریعہ کرتے ہیں۔ لیکن سالہاسال کا یہ معمول اب بدلنے والا ہے، بہت جلد وہ موٹر سے چلنے والی خصوصی وہیل چئر پر نظر آئیں گے۔ کیونکہ انہوں نے معذور افراد کے حقوق کی لڑائی الیکشن کے محاذ پر لڑنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سماجی بہبود کے محکمہ نے ان کو مالی امداد مہیا کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ، ’موٹر وہیل چئر ہوگی تو الیکشن مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ علاقوں کا دورہ کرسکوں گا۔ یہاں کے لیڈر تو چالیس کلومیٹر کا سفر بھی ہیلی کاپٹر پر کرتے ہیں۔‘ لون فی الوقت ’جموں کشمیر ہینڈیکیپڈ، وڈوز اینڈ اولڈ ایج ایسوسی ایشن‘ کےصدر ہیں لیکن وہ باقاعدہ سیاسی پارٹی قائم کرنے کی تیاری میں جُٹ گئے ہیں جسکا نام وہ ’ہمّت‘ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’نام تو ابھی میں نے صرف سوچا ہے۔ ابھی ساتھیوں سے مشاورت ہوگی۔ لیکن یہ طے ہے کہ ہمارا انتخابی نشان یہی ٹرائی سائیکل وہیل چئر ہوگا۔‘ لون کی تنظیم کا انتخابی نعرہ ’ریزرویشن‘ ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ وہ جسمانی طور پر معذور افراد کی بحالی اور امداد کے لیئے خصوصی سرکاری پیکیج کا بھی مطالبہ کرینگے۔ ان کا کہنا ہے کہ ، ’پورے ہندوستان میں جسمانی طور معذور افراد کے لیئے سرکاری ملازمتوں میں تین فی صد کا کوٹہ مخصوص ہے، صرف یہاں نہیں ہے۔ میں تو دلی جاکر بتاؤنگا کہ یہاں کے حکمران کشمیر کو انڈیا کا حصہ نہیں سمجھتے۔ ایسا ہوتا تو ہماری ریزرویشن کا مسئلہ یوں نہ لٹکتا۔ ہم اسی اشو پر الیکشن لڑیں گے۔‘
لون کا مزید کہنا ہے کہ معذور افراد میں اب زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو تشدد کے مختلف واقعات کا نشانہ بنتے ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ سرکار اُن کی بحالی کے حوالے سے ایک جامع پالیسی ترتیب دے۔ رابطہ کرنے پر محکمہ سماجی بہبود کے کمشنر سیکریٹری ڈاکٹر اصغر حُسین سامون نے بی بی سی کو بتایا کہ جسمانی طور معذور افراد کی امداد اور بحالی کے لیئے نئی پالیسی کا مسّودہ عنقریب وزیر اعلیٰ کو پیش کیا جائیگا۔ غلام محمد لون نے ایک دستاویز تیار کی ہے جس کے مطابق جموں، کشمیر اور لداخ میں جسمانی طور معذور لوگوں کی تعداد آٹھ لاکھ کے قریب بتائی گئی ہے۔ لیکن مسٹر سامون نے بتایا کہ سال دو ہزار ایک میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق ایسے افراد کی کُل تعداد تین لاکھ ہے، تاہم وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سرکار اس سلسلے میں علٰیحدہ سروے کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملازمتوں میں تخصیص یا ریزرویشن کے بارے میں سرکار نے آٹھ سال قبل قانون بنایا تھا۔ یہ پوچھنے پر کہ اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ مسٹر سامون کا کہنا تھا کہ ’آہستہ آہستہ ہورہا ہے‘۔ لون کا الزام ہے کہ سماجی بہبود کے محکمہ میں کرپشن ہے اور دلی سرکار کی متعدد سکیموں کا پیسہ وزیروں اور افسروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ریاست کے ہیومن رائٹس کمیشن میں درخواست بھی دی ہے لیکن انہیں انصاف کی بہت کم امید ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کانگریس صدر سونیا گاندھی، ڈائریکٹر سی بی آئی اور ہندوستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے یہاں بھی یادداشتیں ارسال کی ہیں۔ وہ اب اس جدوجہد کو ایک سیاسی تحریک بنانا چاہتے ہیں۔ |
اسی بارے میں انسانی حقوق کے کارکن پر پابندیاں30 September, 2006 | انڈیا علم، فن، شاعری اور عسکریت کاامتزاج 30 September, 2006 | انڈیا سرینگر: فوٹوگرافرز پر تشدد29 September, 2006 | انڈیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||