|
’تحریک‘ اور سرکاری ملازمین | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری ملازمین کے چند حلقے ایک بار پھر علحیدگی پسند تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ پچھلے پانچ ماہ کے دوران ٹریڈ یونین ٹریڈ سینٹر کے اہتمام سے سرینگر، پلوامہ، اننت ناگ اور بڈگام میں کئی بڑی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ان میں شریک ملازمین نے ’قتل عام بند کرو، کشمیر کا مسئلہ حل کرو‘ کے نعرے لگائے۔ ٹی یو سی (TUC) کے صدر سمپت پرکاش نے بڑے منصوبے تیار کیے ہیں تاکہ کشمیر میں علحیدگی پسند تحریک کے لیے بھارت اور دوسرے ممالک میں کارکن طبقے کی حمایت حاصل کی جائے۔ 14 سال قبل جب کشمیر میں بھارت کی حکمرانی کے خلاف مسلح تحریک شروع ہوئی تو سرکاری ملازمین بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے خلاف مظاہروں میں آگے آگے تھے۔ یہاں تک کہ 1993 میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے بغاوت بھی کر لی۔ سرکاری ملازمین نے 1995 میں الیکشن ڈیوٹی دینے سے بھی انکار کیا لیکن اگلے سال یعنی 1996 میں شعلہ بیان مزدور رہنما اشتیاق قادری اچانک بھارت نواز خیمے میں چلے گئے اور اس طرح علحیدگی محاز پر سرکاری ملازموں کی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔ چھ سال کے طویل وقفے کے بعد 2002 میں ممتاز مزدور رہنما سمپت پرکاش علحیدگی پسند پلیٹفارم پر نمودار ہو گئے۔ انہوں نے سرینگر کے مزار شہدا پر ایک جلسہ عام میں خطاب کیا جس کا اہتمام کل جماعتی حریت کانفرنس نے کیا تھا۔ مسٹر پرکاش پنڈت برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی طور پر ان کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب رہا ہے۔ 1990 میں یعنی بھارت مخالف مسلح تحریک شروع ہونے کے چند ماہ بعد جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے انہیں 24 گھنٹوں کے اندر کشمیر چھوڑنے کے لیے کہا جس کی وجہ سے وہ تقریباً 8 سال تک جموں شہر میں ’جلاء وطنی‘ کی زندگی گزارتے رہے۔ ان کے ایک قریبی ساتھی نثار احمد میر کا کہنا ہے کہ سمپت پرکاش کے خلاف جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی دھمکی کے پیچھے ’چھوٹے مزدور رہنما‘ کا ہاتھ تھا۔ لیکن سمپت پرکاش جب وادی واپس لوٹے تو انہیں کل جماعتی حریت کانفرنس کی حمایت حاصل تھی جس میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ بھی شامل تھا۔ ٹریڈ یونین سینٹر علحیدگی پسند تحریک میں سرکاری ملازمین کی شرکت کے بارے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں۔ سمپت پرکاش کہتے ہیں ’ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جانے سے برصغیر ہندوپاک میں مزدوروں کو سیدھا فائدہ پہنچے گا۔ کشمیر ایک مسئلہ ہے جس کا کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل نکالا جانا چاہئیے۔ ایسا کرکے ہی برصغیر میں امن قائم ہو گا جو ان دو ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا ئی خطے کے مزدور طبقے کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔‘ سمپت پرکاش کا کہنا ہے کہ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ مزدور یونین نے اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1940 کی دہائی میں ریلوے ملازمین نے انگریزوں کے خلاف ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کا نعرہ بلند کیا۔ اس کے علاوہ بحری فوج نے بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ مسٹر پرکاش کے ساتھی راجا امین کہتے ہیں ’جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے یہ ہمارے لیے ایک قومی مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام کی اکثریت اس کو ایک تنازعہ مانتی ہے۔ ہم (ٹریڈ یونین) ملازمین کے مسائل ابھارنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان پر دباو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کریں۔ اس میں کون سی غلط بات ہے۔‘ سمپت پرکاش 17 برس تک آل انڈیا ایمپلائیز فیڈریشن کے جنرل سکرٹیری رہ چکے ہیں ، اس طرح انہوں نے مزدور تحریک میں خاصہ اثرورسوخ حاصل کیا ہے اور اس بنا پر وہ کہتے ہیں کہ بھارت اور دوسرے ملکوں میں مزدور طبقوں کو کشمیر میں آزادی کی لڑائی میں تعاون دینے پر آمادہ کریں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مزدور تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں میں مظاہرے کریں اور بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو یاداشتیں روانہ کر کے ان پر کشمیر مسئلے کا حل نکالنے کے لیے دباو ڈالیں۔ اس مقصد سے ٹریڈ یونین سینٹر اس سال ستمبر میں سرینگر میں سارک (SAARC) مزدور کانفرنس کے انعقاد کی تیاریوں میں لگا ہے۔ سمپت پرکاش اقلیتی پنڈت فرقے کے رکن ہیں جو کہ ہندوستان کے ساتھ وفاداری کے لیے مانا جاتا ہے۔ لیکن راجا امیں جو لگ بھگ 40 برس سے سمپت پرکاش کے ساتھی رہے ہیں کہتے ہیں کہ ٹی یو سی پہلی بار’ آزادی کی لڑائی‘ میں تعاون نہیں دے رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ سمپت نے 1975 میں اندرا عبداللہ معاحدے کی مخالفت کی تھی جس کے تحت کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ نے رائے شماری تحریک کو ترک کر کے وزیر اعلٰی کی کرسی سنبھالی۔ راجا امین کہتے ہیں کہ سمپت نے شیخ عبداللہ کو غدار کہا تھا۔ 1989 میں جبکہ مسلح تحریک شروع ہوئی تھی، سمپت پرکاش نے بھارتی پارلیمان کے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ جن دنوں سمپت پرکاش جلاء وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ایک اور کشمیری پنڈت ہردے ناتھ وانچو کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرمی سے کام کر رہے تھے۔ لیکن وانچو کو مشتبہ عسکریت پسندوں نے 1992 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سمپت پرکاش اور ان کے مسلمان ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جب وانچو کا قتل ہوا ان دنوں عسکری تحریک صحیح ڈھنگ سے منتظم نہیں تھی۔ سمپت پرکاش کا کہنا ہے کہ انہیں عسکریت پسندوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||