|
نئے منصوبے، آبی ذخائر کو خطرہ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کسی بھی شہر کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا اظہار اس کی عمارتوں اور انفراسٹرکچر سے ہوتا ہے اور حیدرآباد دکن اسی کے مظاہرے کی کوشش کررہا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دس برسوں کی تیز رفتار ترقی اور پھیلاؤ کے نتیجے میں جہاں شہر کی سڑکیں تنگ دامنی کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور ستر لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں ہر سال ایک لاکھ گاڑیوں کا اضافہ سڑکوں کو بے ہنگم ٹریفک کی آماجگاہ بنارہا ہے وہیں حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کےلیۓ اقدامات شروع کردیئے ہیں- ان ہی کوششوں کے سلسلے میں گزشتہ دنوں ملک کے طویل ترین فلائی اوور کا حیدرآباد میں سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ بارہ کلومیٹر طویل فلائی اوور یا ایلی ویٹڈ ایکسپریس وے حیدرآباد کے قلب میں مہدی پٹنم سے شروع ہو کر حیدرآباد ۔ بنگلور قومی شاہراہ تک جائےگا اور اس کا بنیادی مقصد حیدرآباد کے مضافات میں تیزی سے بننے والے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے تک کے سفر کو آسان اور تیز رفتار بنانا ہے۔ اس ایکسپریس وے کی تعمیر پر چھ ارب روپے خرچ ہونگے اور یہ کام دو سال کے اندر مکمل کرنے کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ مارچ دوہزار آٹھ میں نئے ہوائی اڈے کے افتتاح سے پہلے یہ ایکسپریس وے تیار ہوجائےگا۔ لیکن یہ ایکسپریس وے بدلتے ہوئے حیدرآباد کی واحد نشانی نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے ہندوستان کی سب سے بلند ترین عمارت بھی حیدرآباد میں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس عمارت میں اسی منزلیں ہونگی اور اس کا نمونہ کوالالمپور کے پیٹروناس ٹاور اور دبئی میں بننے والے دنیا کے بلند ترین ٹاور کو سامنے رکھ کر تیار کیا جائیگا اوراس کیلۓ بھی عالمی ٹینڈر طلب کیۓ جائینگے۔ نقشہ بدل رہا ہے اس کے رن وے پر دنیا کا موجودہ سب سے بڑا طیارہ ایئربس اے 380 بھی اترسکے گا اور اس ہوائی اڈے میں سالانہ ستر لاکھ مسافروں کی گنجائش ہوگی۔ ہوائی اڈہ تین مرحلوں میں دس برس میں مکمل ہوجائیں گے۔ یہ ہندوستان میں نجی شعبہ میں بننے والا دوسرا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ ایسا پہلا ہوائی اڈہ بھی جنوبی ہندوستان کی ایک اور ریاست کیرالا کے شہر کوچین میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ بھی اب بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ماحول حیدرآباد کے دو قدیم ترین ذخائر آب عثمان ساگر اور حمایت ساگر کیلیے سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے کیونکہ یہ منصوبے ان ہی علاقوں میں آرہے ہیں جو ان ذخائر آب کے آبگیر علاقے یا کیچمنٹ ایریا ہیں اور وہیں سے بارش کا پانی بہہ کر ان ذخائر میں جمع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت حیدرآباد کے اطراف جو ایک سو ساٹھ کلومیٹر طویل رنگ روڈ کا منصوبہ بنارہی ہے وہ بھی ایسے ہی علاقوں سے گزرے گی۔ تین ارب ڈالر کے جس منصوبے کے آنے پر سرکاری حلقوں میں جشن ہورہا ہے اس پر ماہرین ماحولیات پریشان ہیں کیونکہ کمپیوٹر پراسیسر اور مائیکرو چپس تیار کرنے والے اس پلانٹ سے انتہائی آلودہ پانی نکلےگا۔ تائیوان اور ہانگ کانگ میں اس طرح کا پانی سمندر میں بہایا جاتا ہے۔ حیدرآباد تو خشک علاقہ ہے اور ماہرین وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر یہ پانی زمین میں بہایا گیا تو یہ جذب ہو کر زیر زمین پانی کے وسائل کو بھی تباہ کردیگا۔ لیکن اب تک حکومت کـی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ | اسی بارے میں دکن ڈائری: بش کا دورہ اور وائیکو کی قلابازی04 March, 2006 | انڈیا حیدرآباداور بنگلور رقابت میں شدت11 March, 2006 | انڈیا حیدرآباد دکن میں بش مخالف لہر 01 March, 2006 | انڈیا بھارت: 50 ہزار برقعہ پوشوں کا اجتماع12 February, 2006 | انڈیا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||