BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Saturday, 04 March, 2006, 17:45 GMT 22:45 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
دکن ڈائری: بش کا دورہ اور وائیکو کی قلابازی
 

 
 
چار مینار ، حیدرآباد دکن
معاملہ کچھ بھی ہو احتجاج کا نزلہ مکہ مسجد اور چارمینار کے پاس ہی گرتا ہے۔
صاحبو!
امریکہ کے صدر جارج بش آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن ابھی فسانہ ختم نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے پیچھے کافی ’سامان فکر‘ چھوڑا ہے۔

چیخ چیخ کر مخالفین کے گلے سوکھ گئے، خوب احتجاج ہوا، پتلے جلے اور حسب معمول کئی پتھر پھینکے گئے۔ بش کے چار گھنٹے کے دورے پر اٹھنے والے طوفان نے تاریخی مکہ مسجد اور چار مینار کو نہیں بخشا اور وہاں تو اچھے خاصے تشدد کی نوبت آگئی۔

اسی تاریخی علاقے سے لوگوں کی زیادتی سر سے گزرنے لگی ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں کچھ ہوجائے چاہے معاملہ افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت کا ہو یا ڈنمارک کے بھدے کارٹونوں کا یا پھر اب بش کے دورے کا، ناراض حیدرآبادیوں کا نزلہ مکہ مسجد کے آس پاس ہی گرتا ہے اور اس صدیوں پرانی مسجد کے تقدس کو لیکر باشعور لوگوں کا فکرمند ہونا فظری بات ہے۔

ایک دیہاتی خاتوں تو بش سے اتنی متاثر ہوئی کہ جھٹ سے ان کے گال کا بوسا بھی لے ڈالا۔

تین جمعہ پہلے ڈنمارک کے خلاف تشدد ہوا اور اس بار بش کے خلاف ، لیکن چوٹ یا تو مقامی پولیس کے اہلکاروں کو لگی یا پھر مقامی شہریوں کو۔

ہونٹ بھی اپنے اور دانت بھی۔

تو بات ہورہی تھی جارج بش کی جو اپنے پورے تام جھام کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے محافظین نے ان کی حفاظت کا کچھ ایسا بندوبست کیا تھا کھ احتجاجیوں کا پتھر تو دور، نعرے کی گونج بھی ان کے حساس کانوں میں نہ پڑے۔ وہ اگر ائیر فورس ون سے حیدرآباد آ‎ئے تومیرین ون ہیلی کاپٹر سے اپنی منزل یعنی آچاریہ ین جی رنگا زرعی یونیورسٹی اور انڈین اسکول آف بزنس تک پہونچے۔ امریکی سکیورٹی افسراں کا اتنا سخت کنٹرول کہ مقامی پولیس کے بڑے بڑے عہدیدار بھی دم نہ مار سکے اور امریکیوں نے ان کی جامعہ تلاشی لے ڈالی۔

اخبار والوں کا تو حال بھی مت پوچھئیے۔ ان کے کیمرے اور بیگ تو امریکی کتوں کے حوالے تھے جبکہ وہ خود بار بار تلاشی دے کر بے دم۔

لوگوں کی ناراضگی اپنی جگہ لیکن حکمران بہت خوش ہی۔ ریاست کے وزیراعلی راج شیکھر ریڈی تو اس بات پر پھولے نہیں سمارہے ہیں کہ بش نے حیدرآباد میں امریکی سفارتخانے کے قیام کا فیصلہ کرکے ریاست کو ایک تحفہ دیا ہے اس کے علاوہ ایک سو ملین ڈالرز کے زرعی تحقیق کے جس پروگرام کو امریکہ نے منظوری دی ہے اس سے بھی ریاست کو بڑے فائدے کی امید ہے کیونکہ زراعت آندھرا پردیش کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔

شہر میں ہونے والے احتجاج سے چوٹ یا تو مقامی پولیس کے اہلکاروں کو لگی یا پھر مقامی شہریوں کو۔


بش کو پہلے کسی دیہات کی سیر کرانے کا پروگرام تھا لیکن ماؤسٹوں کے ڈر سے ایسا نہیں ہوسکا اور ریاستی حکومت نے بش کی سہولت کیلئے حیدرآباد میں ہی ایک گاوں بسا دیا وہاں بش کو کسان بھی ملے اور ہینڈلوم بافندے بھی۔ بش کو ایک بھینس بھی دکھا‎‏ئی گئی اور مقامی پھلوں کے تحفے بھی دئیے گئے۔ ایک دیہاتی خاتوں تو بش سے اتنی متاثر ہوئی کہ جھٹ سے ان کے گال کا بوسا بھی لے ڈالا۔

یوں بھی راج شیکھر ریڈی کے لئے خوش ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ انہیں امریکی صدر کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں ہم سفری کا موقع ملا حالانکہ امریکی سکیورٹی عہدیدار اس کے حق میں نہیں تھے پھر انہیں بش کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے گزارنے اور بات کرنے کا موقع بھی ملا۔ ہیلی کاپٹر میں ان کے بیچ سوال جواب کے کچھ نمونے یہ ہیں۔

بش: آپ کے کتنے بچے ہیں
ریڈی: میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے- دونوں کی شادی ہوچکی ہے اور میرے اب چار پوتے اور نواسے ہیں- اصل میں ہمارے ہاں جلد شادی کا رواج ہے-
بش: او اچھا ہم بھی اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے فکرمند ہیں ( دھوتی اور کرتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہ آپ نے کونسے کپڑے پہنے ہیں۔
رِیڈی: یِہ آندھراکے کسانوں کا روایتی لباس ہے مین ایک کسان کا بیٹا ہوں اِسی لئیے میں ایسے ہی کپڑے پہنتا ہوں۔

بش نِے اس دورے میں حیدرآباد کے بارے میں کافی معلومات اکٹھا کیں۔ کتنی آبادی ہے؟ پینے کا پانی کہاں سے آتا ہے؟ وغِیرہ وغیرہ لیکن لوگوں کو حیرت اِس بات پر ہے کہ بش اور اِن کی بیگم نے شہر میں نہ تو کچھ کھایا نہ پیا حیدرآباد کی لذیذ بریانی کے ذایقہ پر شاید سیکیوریٹی خدشات غالب آگے۔

بش چلے تو گئے اور وزیر اعلٰی ان کی تعریف سے نہیں تھک رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ لوگوں کو اب تک سمجھ میں نہیں آسکا ہے کہ بش نے یہ زحمت کیوں کی۔ احتجاج کی شدت سے گھبرا کر ریاستی حکومت نے علی لاعلان کہدیا کہ اس نے بش کو دعوت نہیں دی تھی بلکہ وہ تو وفاقی حکومت کے کہنے پر ان کی میزبانی کر رہی ہے۔

اس طرح بش کا دورہ ’پانچ اندھوں کا ہاتھی‘ بنا ہوا ہے۔

وزیراعلی کہہ رہے ہیں کہ بش کو زراعت اور کسانوں میں بڑی دلچسپی تھی اسی لئے انہوں نے حیدرآباد کو چنا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ نہیں جی ، امریکی بزنس اور کارپوریٹ کمپنیوں کے مفاد میں یہ دورہ ہوا ہے اس لئے انہوں نے کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نظام کی علامت کہے جانے والے انڈین اسکول آف بزنس جانا بھی ضروری سمجھا اور وہاں انھوں نے بزنس مینجمنٹ کے سولہ نوجوان طلبا سے تبادلہ خیال کیا۔

بش نے وہاں جو کچھ کہا اس کے بعد تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ امریکی انتظامیہ ہندوستان کے ساتھ گہری دوستی اور بہتر تعلقات کیلئے کیوں تڑپ رہی ہے۔
بش نے کہا:
’ہندوستان کا متوسط طبقہ تین سو ملین (تیس کروڑ) لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ تو امریکہ سے بھی بڑاہے اور اس میں امریکی کسانوں اور تجارتی کمپنیوں کیلئے زبردست مواقع موجود ہیں۔‘

بش کی نگاہیں چاہے کہیں ہوں نشانہ بالکل واضح ہے اسی لئے تووہ بیرونی سرمایہ کاری پر لگی تحدیدات کو ہٹانے اور ہندوستانی بازار کو زیادہ کھولنے پر زور دے رہے تھے۔

حیدرآباد میں امریکی قونصل خانے کے قیام کی خبر سے تجارتی حلقوں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بشمول امریکہ کی بے شمار کمپنیوں کے دفاتر اور مراکز حیدرآباد میں واقع ہیں۔ امریکہ میں ہندوستان کے جولاکھوں سافٹ ویر انجینئر ہیں ان میں سے چوبیس فیصد کا تعلق آندھرا پردیش سے ہے۔ ہر برس ریاست کے ہزارہا نوجوانوں کو امریکی ویزے کیلۓ چینائی جانا پڑتا ہے لیکن اب یہ قونصل خانہ کھل جانے سے لوگ اس زحمت سے بچ جائیں گے۔

یہ دوسری مرتبہ ہے کہ امریکی صدر کے دورے کے لئیے دہلی کے ساتھ حیدرآباد کوبھی چناگیا۔ چھ برس قبل بل کلنٹن ہندوستان آئے تو انہوں نے بھی حیدرآباد آنا ضروری سمجھا اس وقت یہ کہا گیا تھا کھ آئی ٹی صنعت کے ابھرتے ہوئے مرکز عا لمی بنک کے پسندیدہ اور معاشی اصلاحات کے نمونے کے طور پر حیدراباد کی شہرت انہیں کھینچ لائی ہے اور اس وقت کے وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو اپنے اصلاحات کے پروگرام کی وجہ سے عالمی بنک اور امریکہ کے منظور نظر تھے۔

وجہ کچھ بھی ہو یکے بعد دیگرے دو امریکی صدور کا حیدرآباد آنا ظاہر کرتا ہے کہ چار سو برس پرانا یہ شہر اب امریکیوں کے لے کتنا اہم بن گیا ہے اور کیوں نہ ہو بات چاہے آئی ٹی کی ہو یا بی ٹی (بائیو ٹکنالوجی )کی کال سنٹرز کی فارماسیوٹیکل صنعت کی حیدراباد ایک مصروف ترین مرکز بنا ہوا ہے اور اِس کی یہ پوزیشن دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

آئندہ چند دنوں میں کمپیوٹرز اور الیکٹرانکس سامان کے لے سلیکان چپس اور مائکرو پراَسسرس بنانے والے جس فیاب سٹی کا سنگ بنیاد رکھا جانے والا ہے اس ‏میں بھی دو بڑی امریکی کمپنیوں اےایم ڈی اور سیم انڈِیا کی سرمایہ کاری ہوگی اور اس فہرست میں مزید کئی اضافے ہونے والے ہیں

تمل ناڈو کا عجب حال

ہندوستان کے سب سے جنوبی سرے پر واقع ریاست تمل ناڈو کی سیاست باہر والوں کیلئے ہمیشہ ایک معمہ رہی ہے اور اب جبکہ وہاں مئی کو دو سو چونتیس رکنی اسمبلی کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس ریاست کی سیاست نے ایک اور کروٹ لی ہے۔ حزب اختلاف کے جس محاذ کی قیادت ڈی ایم کے کے سربراہ اور سابق وزیراعلی یم کروناندھی کرتے ہیں اس کی ایک جماعت یم ڈی یم کے اس سے الگ ہوگئی ہے اور موجودہ وزیراعلی جیہ للیتا کی زیر قَیادت آل انڈیا انا ڈی یم کے کے محاذ میں شامل ہوگئی ہے۔

یہ واقعہ کئی اعتبار سے دلچسپ اور اہم ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یم ڈی یم کے کے صدر وائیکو ہیں جنہیں جیہ للیتا نے قوم دشمن سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور انتہائی سخت انسداد دہشت گردی قانون کے تحت انیس ماہ تک جیل میں رکھا۔ وفاقی حکومت میں شامل ہونے کے باوجود وائیکو کو کوئی جیہ للیتا کے غیض و غضب سے نہیں بچا سکا۔ اس کے بعد دو ہزار چار کے لوک سبھا انتخابات میں وائیکو جیہ للیتا کے خلاف آگ اگلتے ہوۓ کروناندھی کے خیمے میں چلے گئے لیکن اب عین اسمبلی انتخابات سے قبل انہوں نے پھر قلابازی کھائی ہے اور واپس جیہ للیتا کے کیمپ میں آگئے ہیں۔ اس کی کوئی نظریاتی وجہ نہیں ہے بلکہ اسکا سبب صرف یہ ہے کہ اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم میں ڈی یم کے نے یم ڈی یم کے کیلۓ بائیس نشستوں کی پیشکش کی تھی اور وائیکو کو زیادہ نشستیں چاہئیے تھیں جبکہ جیہ للیتا انہیں پینتیس نشستیں دینے پر تیارہوگئی ہیں۔

لیکن یہ تبدیلی کروناندھی کے محاذ کو مہنگی پڑسکتی ہے۔ جیہ للیتا پانچ برسوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد دوبارہ الیکشن جیتنے کی کوشش کررہی ہیں اور وائیکو ان کیلۓ مددگار ہوسکتے ہیں۔ کروناندھی کا محاذ اب تک اپنی کامیابی کے بارے میں پرامید تھا لیکن وائیکو کے حیرت ناک قدم نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

وائیکو کا اقدام خود مرکزمیں منموہن سنگھ کی مخلوط حکومت کیلئے بھی ایک دھکہ ہے کیونکھ وائیکو کی پارٹی باہر سے اس مخلوط حکومت کی تائید کررہی تھی۔ اگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں یو پی اے سے اسی طرح الگ ہوتی رہیں تو منموہن سنگہ کا مستقبل بھی مخدوش ہوسکتا ہے۔

 
 
نیوکلیئر پروگرامایٹمی تنہائی کاخاتمہ
امریکہ نےانڈیا کوجوہری طاقت مان لیا
 
 
بش مخالف مظاہرہحیدر آباد دکن میں:
امریکی صدر کے دورے کی مخالفت
 
 
ارن دھتی’مجھے افسوس ہے‘
جنگی مجرم کا استقبال کیا جارہا ہے: ارون دھتی
 
 
صدر بش بش کا دورہ بھارت
خیر مقدم کے ساتھ مظاہروں کی تیاریاں
 
 
   بشدلی ڈائری
بش ریلی، مادھوری، امرسنگھ اور جسیکا
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد