|
بھارتی سیاست کے تین یادو | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تقریباً پندرہ سال قبل ہندوستان کے غیر کانگریسی سیکولر سیاسی افق پر ابھرنے والے یادو ذات کے تین سب سے اہم رہنما ۔ ملائم سنگھ یادو، شرد یادو اور لالو پرساد یادو۔ آج نہ صرف مختلف خیموں میں منقسم ہیں بلکہ ذات پات کی سیاست کے لئے بدنام علاقہ میں ذاتی مفاد کے غلبہ کی مثال ہیں۔ سوشلسٹ اور سیکولر سیاست کے اہم ستون مانے جانے والے ان تین رہنماؤں میں ایک شرد یادو مرکز کی ہندو نواز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں وزیر ہیں۔ ان میں سب سے سنئیر رہنما ملائم سنگھ کچھ ہی ماہ قبل یو پی میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔لالو پرساد حالانکہ چارہ گھپلے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ مگر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کہ اپنی اہلیہ رابڑی دیوی کی زیر قیادت آر جے ڈی کی حکومت میں سب کچھ لالو کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یادو ذات کے اس ثلاثہ میں سب سے پہلے ملائم سنگھ یادو الگ ہوئے جب وی پی سنگھ کی حکومت کے زوال کے بعد چندرشیکھر وزیر اعظم بنے۔ بعد میں ملائم سنگھ کی ان سے بھی نہیں نبھی اور ملائم نے سماج وادی پارٹی بنا لی۔ جس کے وہ ہنوز صدر ہیں۔ شرد یادو اور لالو پرساد قدرے لمبے عرصے تک ساتھ رہنے کے بعد 1997 میں جدا ہو گئے۔ تنظیمی انتخابات کے بعد لالو پرساد نے راشٹریہ جنتا دل کے نام سے اپنی جماعت بنائی اور شرد یادو نے اپنی الگ پارٹی بنا لی۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ان تینوں لیڈروں کے کردار پر سیاسی حلقوں میں بڑا چرچا ہے۔شرد یادو کی پوزیشن صاف ہے اور لالو پرساد کانگریس کے ساتھ ہیں۔ مگر ملائم سنگھ کے بارے میں سارے سیاسی مبصر شش و پنج میں ہیں۔
مرکز میں آئندہ حکومت کاانحصار کافی حد تک یو پی کے نتائج پر ہے اور وہاں ملائم کی سماج وادی پارٹی کافی مضبوط مانی جاتی ہے مگر کانگریس سے اس کا اتحاد نہ ہونے سے فائدہ بی جے پی کو ہی پہنچے گا اس لئے سیاسی مبصرین اب اس تجزیہ میں لگے ہیں کہ انتخابات کے نتائج کے بعد ملائم کا رخ کیا ہو گا۔ بہرحال یادو برادری کے ان رہنماؤں میں لالو پرساد کو اپنی ہی ذات کے رہنماؤں سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ بہار میں مشہور کہاوت ہے کہ ذات کا دشمن ذات۔ لالو کے ساتھ بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بہار میں بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد کے خلاف اصل قوت لالو پرساد کی ہے مگر ملائم سنگھ کا خیال ذرا مختلف ہے۔ اس کے خیال میں لالو موقع پرست ہیں اور انہوں نے فرقہ واریت کا ہوا کھڑا کر کے اقتدار میں رہنے کے لئے عوام سے دھوکا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لالو نے رتھ یاترا کے دوران اڈوانی کی گرفتاری کا سیاسی فائدہ اٹھایا لیکن خود انہوں نے شنکر اچاریہ کی گرفتاری پر خاموشی اختیار کر لی۔ ملائم کہتے ہیں کہ فرقہ پرستی کی جنگ یو پی میں مرکوز ہے مگر لالو پرساد کا خیال ہے کہ وہ بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ اس کےلئے لالو کے پاس اپنے دلائل ہیں۔ ملائم کی سماج وادی پارٹی کابہار میں کوئی خاص اثر نہیں مانا جاتا پھر بھی وہ ریاست کی سبھی چالیس سیٹوں پراپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے سیکولر جماعتوں کو نقصان ہو گا۔لالو پرساد بھی سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو ’ووٹ کٹوا‘ کہتے ہیں۔ یہ جتنے ووٹ لیں گے لالو پرساد کو ہی نقصان پہنچائیں گے۔ لالو پرساد کی تلخی یہاں تک محدود نہیں بلکہ حال ہی میں انھوں نےایک بیان میں ملائم سنگھ پر ’سکھوئی طیارہ‘ کی خرید داری میں بد عنوانی کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ اسی وجہ سے بی جے پی کے شکنجہ میں ہیں۔ ’سکھوئی طیارہ‘ پر تو ابھی ملائم سنگھ کا جواب سامنے نہیں آیا مگر سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو ’ووٹ کٹوا‘ کہنے پر وہ بہت ناراض ہیں اور انھوں نے پٹنہ کے دورے میں لالو کو جوکر تک کہہ ڈالا۔
لالو پرساد ایک بار پھر مدھے پورہ کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں لالو کا یہاں سے الیکشن لڑنے کا مقصد اس الزام سے بچنا ہے کہ وہ شرد سے خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے ہیں حالانکہ لالو ایک اور حلقہ ’چھپرہ‘ سے بھی امیدوار ہیں۔ دونوں کے درمیان سیاسی رقابت کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ یہ اطلاع ملنے پر کہ لالو چھپرہ سے امیدوار ہیں شرد بھی وہاں سے الیکشن لڑنے کا سوچ رہے ہیں حالانکہ یہ سیٹ این ڈی اے کی طرف سے بی جے پی کو الاٹ کی گئی تھی۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||