رنبیر اور عالیہ کی شادی کی میزبانی کرنے والا آر کے سٹوڈیو جہاں نصرت فتح علی خان کی آواز بھی گونجی تھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وندنا
- عہدہ, بی بی سی دلی، ٹی وی ایڈیٹر
بارش کی بوندوں میں ایک ہی چھتری کے نیچے کھڑے پیار میں دھڑکتے دو دل، ایک دوسرے کے قریب لیکن درمیان میں پھر بھی فاصلہ ہے۔
ممبئی کے مشہور ’آر کے‘ سٹوڈیو میں فلمایا جانے والی فلم ’شری 420‘ کا یہ گانا 'پیار ہوا اقرار ہوا' آج بھی محبت کا ترانہ بنا ہوا ہے۔
نہ جانے کتنی فلموں کی محبت کی داستانوں کا آغاز اور اختتام راج کپور کے بنائے ہوئے آر کے سٹوڈیو میں ہوا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ایک حقیقی محبت کی کہانی یعنی عالیہ بھٹ اور رنبیر کپور کی جوڑی کی شادی کی کئی رسومات بھی اس آر کے سٹوڈیو میں ہونے والی ہیں۔
وہی سٹوڈیو جہاں رنبیر کے والد رشی کپور اور والدہ نیتو کپور کی شادی کا رسیپشن ہوا تھا۔
یہ وہ جگہ ہے جو 1980 میں رشی کپور کی شادی کے وقت پوری ہندی فلم انڈسٹری کی قدآور شخصیات کی موجودگی کی گواہ ہے۔
یہاں تک کہ استاد نصرت فتح علی خان کی مدھر آواز بھی اس میں گونجی تھی جب وہ راج کپور کے کہنے پر رشی کپور کے سنگیت کی تقریب میں آئے تھے۔ رشی کپور نے خود اس کا ذکر اپنی کتاب 'کھلم کھلا' میں کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہRANDHIR KAPOOR
آر کے سٹوڈیو میں لگنے والی خوفناک آگ
آر کے سٹوڈیو آج باقی نہیں رہا۔ 2017 میں ہونے والی خوفناک آگ میں سٹوڈیو کا بڑا حصہ اور یہاں رکھا فلموں کا تمام سامان جل کر راکھ ہو گیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سنہ 2018 میں کپور خاندان نے اسے گودریج پراپرٹیز کو بیچ دیا تھا۔ لیکن آر کے سٹوڈیو کی یادیں آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
1948 میں انڈیاکی آزادی کے ایک سال بعد 24 سال کی عمر میں راج کپور نے آر کے بینر بنایا اور آر کے سٹوڈیو کا خواب دیکھا۔ یعنی اس سٹوڈیو کی کہانی آج کے انڈیا اور اس کے بنتے ، بگڑتے خوابوں کی بھی کہانی ہے۔
دو ایکڑ پر پھیلا علیشان آر کے سٹوڈیو اور اس کے قریب ہی راج کپور کا کاٹیج اور راج کپور کی کہانیاں آج بھی مشہور ہیں۔
مصنف اور صحافی خوشونت سنگھ 1976 میں نیویارک ٹائمز میں بالی ووڈ پر ایک مضمون لکھنے کے سلسلے میں آر کے اسٹوڈیو گئے تھے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 1
انہوں نے لکھا، 'میں رات کو وہاں گیا تھا۔ اس وقت راج کپور اور زینت امان کمرے میں تھے۔ ستیم شیوم سندرم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ راج کپور کے کمرے کی دیواروں پر ہندو دیوتاؤں، عیسیٰ مسیح، نہرو کی تصویریں تھیں۔ راج کپور کی تمام ہیروئنوں کی تصاویر بھی وہاں لگی ہوئی تھیں۔
’وہاں ایک بک شیلف تھا جہاں کتابیں صفائی سے رکھی گئی تھیں اور ایک شیشے کا گلدان تھا جس میں سونے اور چاندی کے سکے تھے۔'
راج کپور نے مجھے کہا کہ جب میں بیرون ملک سے آتا ہوں تو بچے ہوئے سکے یہاں ڈال دیتا ہوں، جب میں نہیں رہوں گا تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ میں کہاں کہاں گیا تھا'۔
تب خشونت سنگھ نے آر کے سٹوڈیو کو سب سے بڑا اور سب سے زیادہ گلیمرس پروڈکشن سینٹر کہا۔
آر کے سٹوڈیو اور راج کپور کی ایسی کہانیاں اور یادیں لوگوں کے ذہنوں میں بھری پڑی ہیں۔
آر کے سٹوڈیو کی ہولی
پھر چاہے وہ آر کے سٹوڈیو کی دھمال ہولی ہو یا چیمبور میں آر کے سٹوڈیو کا گنیش مہوتسو( ہندووں کے بھگوان کنیش کی پوجا)۔
ہولی کے بعد فلمی میگزین کے صفحات آر کے سٹوڈیو کی ہولی کی کہانیوں سے بھر جایا کرتے تھے۔

،تصویر کا ذریعہRandhir kapoor
لوگ خاص طور پر میگزین میں رنگوں میں ڈوبی ہیرو ہیروئنوں کی تصویریں دیکھنے کے لیے انہیں خریدتے تھے۔
آر کے سٹوڈیو کے قریب راج کپور کا کاٹیج بھی بہت خاص تھا۔ مصنفہ مدھو جین نے اپنی کتاب کپور نامہ میں لکھا ہے، راج کپور اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ جھونپڑی ان کے مندر کی طرح ہے۔ اس کاٹیج کا دروازہ فلمساز راج کپور اور خاندان راج کپور کے درمیان کنٹرول لائن کی طرح تھا۔ خاندان نے اس حد کو کبھی پار نہیں کیا تھا۔
جب ممبئی کے چیمبور کے علاقے کو کوئی نہیں جانتا تھا تو آر کے سٹوڈیو ایک طرح کا سیاحتی مقام تھا جس کے دروازے کے باہر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم جمع ہوتا تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 2
آر کے سٹوڈیو کے لوگوں کی کہانی بھی راج کپور کے فلمی سفر اور نرگس کے ساتھ ان کی محبت کی کہانی سے شروع ہوتی ہے۔ 1948 میں آنے والی فلم آگ کچھ زیادہ نہیں چل سکی لیکن اس کے بعد 1949 میں راج کپور نے نرگس کے ساتھ فلم 'برسات' بنائی۔
فلم کے ایک مشہور سین میں جہاں راج کپور ایک ہاتھ سے وائلن بجا رہے ہیں اور دوسری جانب ان کی باہوں میں نرگس ہیں، اس منظر سے متاثر ہو کر آر کے سٹوڈیوز کا لوگو بنایا گیا جو ہمیشہ کے لیے آر کے اسٹوڈیو کی پہچان بن گیا۔
1950 میں جب راج کپور نرگس کے ساتھ فلم آوارہ کی شوٹنگ کر رہے تھے تو انھیں فلم کا گانا 'گھر آیا میرا پردیسی شوٹ کرنا پڑا۔ تب تک ان کے خوابوں کا آر کے سٹوڈیو مکمل نہیں ہوا تھا اس کی دیواریں تو تھیں لیکن چھت ابھی تک نہیں تھی۔
لیکن سپنوں کی نگری کا وہ گانا بغیر چھت کے آر کے سٹوڈیو میں ہی فلمایا گیا تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 3
جس آر کے سٹوڈیو میں رنبیر کپور کی شادی کی باتیں ہو رہی ہیں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یہاں خود کسی فلم کی شوٹنگ نہیں کی لیکن ان کے خاندان کی تاریخ یہاں چھپی ہے۔
بابی، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، میرا نام جوکر، ستیم شیوم سندرم، جاگتے رہو، پریم روگ، رام تیری گنگا میلی جیسی مشہور فلمیں اور ان کے گانوں کی شوٹنگ یہاں کی گئی تھی۔
آگ میں پیش قیمتی سامان جل کر راکھ ہو گیا
ان فلموں سے متعلق لاتعداد نشانیاں راج کپور نے آر کے سٹوڈیو میں سجا، سنوار کر محفوظ کر رکھی تھیں۔
ڈمپل کا وہ لباس جو فلم ’بوبی‘ میں قومی کریز بن گیا تھا یا ’شری 420‘ اور ’آوارہ‘ کا چارلی چیپلن کا لباس اس آر کے سٹوڈیو میں رکھا گیا تھا۔
فلم ’آوارہ‘ میں نرگس کو راج کپور نے جو ہار پہنایا تھا، وہ دونوں کے درمیان محبت کی گواہی دیتا ہے، پیار ہوا اقرار ہوا کی کالی چھتری وہیں کہیں کونے میں رکھی رہتی تھی۔

،تصویر کا ذریعہRANDHIR KAPOOR
مدھو جین اپنی کتاب کپور نامہ میں لکھتی ہیں، 'کئی سالوں سے راج کپور کی فلموں سے متعلق کپڑے اور بیش قیمتی سامان آر کے سٹوڈیو کے اس حصے میں رکھے گئے تھے جو کبھی نرگس کا ڈریسنگ روم تھا۔ نرگس نے جب آر کے سٹوڈیو چھوڑا تو وہ کمرہ کئی نئی ہیروئنوں کا میک اپ روم بن گیا۔کئی برس بعد جب میں سٹوڈیو گئی تو اس دور کی یادیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔
’ایک طرف، آرچی کامکس تھی جو راج کپور کو بہت پسند تھی، نرگس کے خوبصورت سیاہ لباس میں ایک بے جان پتلا کھڑا تھا یہ وہ لباس تھا جو نرگس نے آوارہ میں پہنا تھا۔ یہاں تک کے وہ چاقو بھی رکھا تھا جس سے فلم میں راجو نے جگا ڈاکو کا خون کیا تھا'۔
لیکن اب یہ ماضی کی باتیں ہیں۔ آگ میں صرف آر کے سٹوڈیو ہی نہیں ہندی فلموں کی ایک پوری تاریخ جل کر راکھ ہوگئی۔
یہاں تک کہ آر کے سٹوڈیو کے آس پاس دکانوں، کھوکھوں، اداروں میں کام کرنے والوں کی بھی اپنی یادیں ہیں۔ خواہ وہ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے وابستہ لوگ ہوں جو قریب میں بنایا گیا تھا، یا سٹوڈیو کے باہر چاٹ کلچے اور پان کی دکان والے ہی کیوں نہ ہوں۔
2018 میں جب اس کی فروخت ہونے کی خبر آئی تو رشی کپور نے کہا تھا کہ خاندان نے سینے پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہRK FILMS AND STUDIOS
تاہم اب کپور خاندان نے آر کے سٹوڈیو کی تمام فلموں کے نگیٹیئو نیشنل فلم آرکائیو آف انڈیا کے حوالے کر دیے ہیں۔ اس میں 1948 کی پہلی فلم آگ سے لے کر 1999 کی آخری فلم آ اب لوٹ چلیں شامل ہیں۔
راج کپور کے بعد آر کے سٹوڈیو
فلم کے شائقین اکثر پوچھتے ہیں کہ راج کپور کے جانے کے بعد آر کے فلمز اور آر کے سٹوڈیو اپنی جگہ کیوں برقرار نہیں رکھ پائے۔
1988 میں راج کپور کے جانے کے بعد رندھیر کپور نے 1991 میں آر کے بینر تلے اپنی نامکمل فلم 'حنا' مکمل کی۔
راجیو کپور نے 1996 میں رشی کپور اور مادھوری دکشٹ کے ساتھ پریم گرنتھ کی ہدایت کاری کی اور 1999 میں رشی کپور نے ایشوریہ رائے کے ساتھ آ اب لوٹ چلیں بنائی۔ یہ آر کے سٹوڈیو کی آخری فلم تھی۔ ان میں سے کوئی بھی فلم کمرشیکلی کامیاب نہیں ہو سکی۔
اپنی کتاب 'کھلم کھلا 'کی ریلیز کے دوران رشی کپور نے ایک انٹرویو میں سہیل سیٹھ سے کہا تھا 'میں اداکاری میں مصروف تھا، شاید ہمارا ناظرین سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ انڈسٹری بدل رہی تھی، نئے ہیرو آئے تھے، سوچ بدل گئی تھی، میں بہانہ نہیں بنا رہا لیکن شاید مجھے نئے لوگوں کو رکھنا چاہیے تھا۔ میں فلمیں ڈائریکٹ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میں اچھے لوگوں کی خدمات حاصل کر سکتا تھا'۔

،تصویر کا ذریعہRK FILMS AND STUDIOS
نئی صدی میں ملینیم جنریشن کا آر کے سٹوڈیو سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ وہاں کچھ ٹی وی سیریلز کی شوٹنگ ہوئی۔ آخر کار امتیاز علی کی فلم جب ہیری میٹ سیجل کا ایک سین وہاں شوٹ کیا گیا۔
لیکن آج، رنبیر کے ذریعے، آر کے سٹوڈیو کی کہانیاں اور یادیں پھر سے تازہ ہو گئی ہیں۔
آر کے سٹوڈیو کی بیش قیمت یادیں
جب سٹوڈیو زندہ تھا، تو فلموں، فلمی ستاروں، ان کے قہقہوں اور ان کے سازو سامان سے بھرا رہتا تھا۔
ایک عمارت کے لیے 'زندہ ' کا لفظ استعمال کیا گیا کیونکہ آر کے سٹوڈیو کوئی بے جان عمارت نہیں تھی، اس کی دیواریں بولتی تھیں، وہاں رکھی تصویریں کہانیاں بیان کرتی تھیں، وہاں کا ہر ایک ذرہ اور سامان الگ کہانی بیان کرتا تھا۔
پھر وہ برساتی وائلن ہو جس کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے راج کپور نے نرگس کو باہوں میں بھر رکھا تھا، یا وہ ڈفلی جسے راج کپور فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ میں بجاتے نہیں تھکتے تھے یا وہ گمنام محبت کا خط جو راجندر کمار نے فلم سنگم میں وجینتی مالا کو لکھا تھا۔ یا ہاتھ سے پینٹ کیے ہوئے ایم ایف حسین کے وہ کریڈٹس جو فلم ’حنا‘ میں استعمال ہوئے یا فلم ’شری 420‘ کی راج کپور کی ٹوپی یا ’میرا نام جوکر‘ کا وہ جوکر۔
کہا جاتا ہے کہ جوکر آخر تک آر کے سٹوڈیو میں تھا، اس کی وگ اتر گئی تھی، وہ کرسی پر بیٹھنے پرجھک گیا تھا... لیکن وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے راکھ میں جلتے ہوئے وہ مسخرہ یہی کہہ رہا ہو کہ 'شو مسٹ گو آن'۔
اس موقع پر آر کے سٹوڈیو میں شوٹ ہونے والا فلم پریم روگ کا وہ گانا یاد آ رہا ہے کہ 'یہ گلیاں یہ چوبارہ، یہاں آنا نہ دوبارہ‘
ابھی راج کپور کے پوتے رنبیر کپور کی شادی کے بہانے آر کے سٹوڈیو کی گلیوں میں واپسی کا موقع ملا ہے جسے اب لگژری فلیٹس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔








