آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سعودی عرب میں رواں برس دو پاکستانیوں سمیت 347 افراد کو سزائے موت: ’لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جا رہا ہے‘
- مصنف, کیرولین ہاؤلے
- عہدہ, بی بی سی نیوز
سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے افراد کی تعداد میں پچھلے سال کی نسبت اس سال اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق رواں سال اب تک کم از کم 347 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 345 تھی۔
یہ اعدادوشمار برطانیہ میں قائم گروپ ’ریپریو‘ نے جاری کیے ہیں جو سعودی عرب میں سزائے موت پر نظر رکھتا ہوئے وہاں موجود سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی وکالت کرتا ہے۔
ریپریو کا کہنا ہے کہ ’جب سے انھوں نے نگرانی کا کام شروع کیا ہے تب سے اب تک سال 2025 سعودی عرب میں سزائے موت کا سب سے خونیں سال رہا۔‘
تازہ ترین سزائے موت پانے والوں میں دو پاکستانی شہری بھی تھے جنھیں منشیات رکھنے سے متعلق جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔
اس سال سزائے موت پانے والوں میں ایک صحافی اور دو ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو احتجاج (مبینہ جرم) کے وقت بابالغ تھے۔ اس کے علاوہ پانچ خواتین کو بھی سزائے موت دی گئی۔
تاہم تنظیم ’ریپریو‘ کے مطابق زیادہ تر (تقریباً دو تہائی) افراد کو غیر مہلک منشیات سے متعلق جرائم میں سزا سنائی گئی جسے اقوامِ متحدہ نے ’بین الاقوامی اصولوں اور معیار کے خلاف‘ قرار دیا۔
ان میں سے نصف سے زیادہ غیر ملکی شہری تھے جنھیں بظاہر سعودی عرب نے ’منشیات کے خلاف جنگ‘ کے تحت سزائے موت دی۔
سعودی حکام سے بی بی سی نے سزائے موت میں اضافے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی تاہم تاحال ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’انھیں فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کو پھانسی دیتے ہیں‘
ریپریو کی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سربراہ جید بسیونی کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب انسانی حقوق کے نظام کا مذاق بناتے ہوئے مکمل استثنیٰ کے ساتھ یہ کام کر رہا ہے۔‘
انھوں نے سعودی عدالتی نظام میں تشدد اور جبری اعترافات کو ’معمول کی کارروائی‘ قرار دیا۔
جید بسیونی نے اس نظام کو ’ظالمانہ اور من مانا کریک ڈاؤن قرار دیا جس میں ان کے مطابق بے گناہ افراد اور معاشرے کے کمزور طبقے پھنس گئے ہیں۔
چند روز قبل سعودی عرب میں ایک نوجوان مصری ماہی گیرعصام الشاذلی کو سزائے موت دی گئی۔
عصام الشاذلی کو 2021 میں سعودی سمندری حدود سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر منشیات سمگل کرنے کا الزام تھا۔ ریپریو کے مطابق 96 سزائیں صرف حشیش سے متعلق مقدمات میں دی گئی ہیں۔
جید بسیونی نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ انھیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کو پھانسی دیتے ہیں۔ بس وہ معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ معاملہ چاہے احتجاج کا ہو، آزادیِ اظہار ہو یا منشیات سے متعلق، سعودی عرب ان تمام پر اپنی عدم برداشت کی پالیسی کے ساتھ سختی سے کاربند ہے۔‘
’جمعہ اور ہفتہ کو ہی نیند آتی ہے کیونکہ اس دن پھانسیاں نہیں ہوتیں‘
سعودی حکام نے 2022 کے آخر میں منشیات سے متعلق سزاؤں میں اضافہ کیا، جسے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے انتہائی افسوسناک قرار دیا۔
بی بی سی سے بات کرنے والے قیدیوں کے رشتہ داروں نے بتایا کہ وہ اب ’خوف‘ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی شخص نے کہا کہ ’ایک ہفتے کے دوران صرف جمعے اور سنیچر کو ہی مجھے نیند آتی ہے کیونکہ ان دنوں میں پھانسیاں نہیں ہوتیں۔‘
ریپریو کے مطابق قیدی برسوں اپنے ساتھ جیل میں رہنے والے ساتھیوں کو چیختے چلاتے موت کی طرف جاتے دیکھتے ہیں۔
سعودی شہزادے محمد بن سلمان سنہ 2017 میں ولی عہد بنے اور تب سے اب تک انھوں نے گزشتہ چند برسوں میں ملک میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ جہاں انھوں نے سماجی پابندیوں میں نرمی کی وہیں انھوں نے تنقیدی اور مخالف آوازوں کو سختی سے دبایا۔
تیل پر انحصار سے ہٹ کر انھوں نے اپنی معیشت میں تنوع لانے کے لیے سعودی عرب کے دروازے بیرونی دنیا کے لیے کھول دیے۔ مذہبی پولیس کو سڑکوں سے ہٹا دیا گیا اور خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت بھی دے دی۔
تاہم امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے مملکت کا ریکارڈ اب بھی ’انتہائی داغ دار‘ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کو بڑے پپیمانے پر دی جانے والی سزائے موت پر گہری تشویش ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق حالیہ برسوں میں چین اور ایران نے زیادہ لوگوں کو سزائے موت دی۔
ہیومن رائٹس واچ کے محقق جوئی شئے نے کہا کہ ’محمد بن سلمان اور ان کے حکام کو ان سزاؤں کو جاری رکھنے پر کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑی۔ تفریحی تقریبات، کھیلوں کے مقابلے سب کچھ ویسے ہی جاری ہیں۔‘
تنظیم ریپریو کے مطابق سزائے موت پانے والوں کے اہلِخانہ کو عام طور پر پہلے سے اطلاع نہیں دی جاتی، نہ ہی لاش حوالے کی جاتی ہے اور نہ ہی بتایا جاتا ہے کہ انھیں کہاں دفنایا گیا۔
سعودی حکام سزائے موت کے طریقہ کار کو ظاہر نہیں کرتے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ یا تو سر قلم کرنے یا فائرنگ سکواڈ کے ذریعے دی جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے خصوصی نمائندے ڈاکٹر مورس ٹڈبال بنز نے بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں سعودی عرب میں سزائے موت پر فوری پابندی لگانے اور بالآخر اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے زور دیا کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ مؤثر قانونی معاونت، غیر ملکی شہریوں کے لیے قونصلر رسائی، اہلِخانہ کو فوری اطلاع، لاشوں کی بروقت واپسی اور سزائے موت کے جامع اعداد و شمار کی اشاعت کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں کی مکمل پاسداری کرے تاکہ آزادانہ جانچ ممکن ہو سکے۔‘
رواں سال سزائے موت پانے والے سعودی شہریوں میں عبداللہ الدرزی اور جلال اللباد بھی شامل تھے جو گرفتاری کے وقت نابالغ تھے۔
انھوں نے 2011 اور 2012 میں حکومت کی جانب سے شیعہ مسلم اقلیت کے ساتھ برتاؤ کے خلاف احتجاج کیا تھا اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے جنازوں میں شرکت کی تھی۔
انھیں دہشت گردی سے متعلق الزامات میں سزائے موت سنائی گئی۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان سزاؤں کو ’انتہائی غیر منصفانہ مقدمات‘ قرار دیا ور دعویٰ کیا کہ ان سے تشدد کے زور پر اعترافات کروائے گئے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے عبداللہ الدرزی اور جلال اللباد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوامِ متحدہ نے جون میں صحافی ترکی الجاسر کی سزائے موت کی بھی مذمت کی جنھیں 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ترکی الجاسر پر ان کے نام سے منسوب تحریروں کو بنیاد بنا کر دہشت گردی اور غداری کے الزامات عائد کیے گئے اور موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولے نے کہا کہ ’صحافیوں کو سزائے موت دینا آزادیِ اظہار اور صحافت پر خوفناک حملہ ہے۔‘
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مطابق ترکی الجاسر سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سزائے موت پانے والے پہلے صحافی تھے۔
اگرچہ اس سے قبل 2018 میں ایک اور صحافی جمال خاشقجی کو سعودی ایجنٹس استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر چکے تھے۔
سعودی عرب کا ’انسانی حقوق کے تحفظ اور پاسداری‘ کا دعویٰ
گزشتہ سال دسمبر میں اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے سعودی حکام کو ایک خط میں 32 مصری شہریوں اور ایک اردنی شہری کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔
ان تمام افراد کو منشیات سے متعلق الزامات پر سزائے موت سنائی گئی تھی اور قانونی نمائندگی کی مبینہ عدم موجودگی کے باعث ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس سال کے شروع میں سزائے موت پانے والے ایک شخص کے رشتہ دارکے مطابق ’اس نے بتایا تھا کہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لے جا کر قتل کیا جا رہا ہے۔‘
بی بی سی نے ان الزامات پر سعودی حکام سے جواب مانگا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم جنوری 2025 میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندوں کی جانب سے تشویش کے جواب میں سعودی حکام نے کہا تھا کہ سعودی عرب ’انسانی حقوق کا تحفظ اور پاسداری کرتا ہے‘ اور اس کے قوانین ’تشدد کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور اس کی سزا دیتے ہیں۔‘
سعودی حکام نے مزید کہا تھا کہ سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرائم کے لیے اور نہایت محدود حالات میں دی جاتی ہے اور جب تک تمام سطحوں کی عدالتوں میں کارروائی مکمل نہ ہو جائے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔‘