حج کی ادائیگی کے لیے لاکھوں حاجی مکہ میں موجود

،تصویر کا ذریعہEPA
سعودی عرب کے شہر مکہ 15 لاکھ عازمینِ حج موجود ہیں جو بغیر کسی پریشان کے فریضہ حج ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ گذشتہ برس جج کے دوران بھگڈر مچنے سے دو ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس مرتبہ کسی بھی قسم کے حادثے کے بچنے کے لیے حاجیوں کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جن میں شناخت کے لیے خصوصی الیکٹرانک برسیلٹ وغیرہ شامل ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی بنا پر اس سال ہزاروں ایرانی حج کی ادائیگی سے محروم رہے۔
حج کا شمار مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع میں ہوتا ہے۔
مکہ میں مسجد الحرام میں ابتدائی رسومات کی ادائیگی کے بعد سنیچر کو حاجی بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے منیٰ جا رہے ہیں جو مکہ سے پانچ کلو میٹر کی مسافت پر ہے اور اس وقت وہاں درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ ہے۔
مسلمان 1400 سال قبل مسلمانوں کے آخری پیغبر نے یہ سفر کیا تھا جس کی مسلمان پیروی کرتے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا ذریعہEPA
سنیچر حج کا پہلا دن ہے اتوار کو حاجی میدانِ عرفات جائیں گے جو منیٰ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ عرفات میں قیام اور خطبہ حج کا سب سے اہم رکن ہے۔
منیٰ کے وسیع و عریض علاقے میں جا بجا سفید خیمے لگے ہوئے ہیں جو فائر پروف ہیں۔ ان خیموں میں 25 لاکھ حاجیوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔
گذشتہ سال منیٰ میں بھگڈر کا شمار حج کی تاریخ کے بد ترین حادثے میں ہوتا ہے۔ اس حادثے میں کئی حاجی مارے گئے جن کی اکثریت ایرانیوں پر مشتمل تھی۔
یہ حاجی جمرات کے مقام پر ریمی کر رہے تھے یعنی شیطان کو کنکریاں مار رہے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سال حاجی پیر کو ریمی کریں گے۔

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا ذریعہEPA
گذشتہ سال حج کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو سعودی حکومت نے کم ظاہر کیا تھا۔ سعودی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن اس تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا کچھ بھی اب تک سامنے نہیں آیا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی معاہدے پر اتفاق نہ ہونے کے بعد ایرانی اس سال حج نہیں کر رہے۔
ایران کا کہنا ہے سعودی حکومت نے حاجیوں کی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ ایران ایسے مطالبات کر رہا ہے جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ایران اور سعوری عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور شام، یمن کے بحران سمیت علاقائی مسائل پر بھی دونوں ممالک میں اختلاف رائے اور تناؤ ہے۔
سعودی عرب میں بی بی سی کی سیلی نیبل کا کہنا ہے کہ اس سال سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے ہیں اور کئی مقام ایک ہی وقت میں زیادہ افراد کو جمع نہ ہونے دینے کے لیے ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔
اس سال تمام حاجیوں کو الیکٹرانک برسیلٹ دیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی حالت میں حاجیوں کی فوری شناخت کو ممکن بنایا جا سکے۔







