’اب یورپی یونین اپنی شرائط پربات کرےگی‘

    • مصنف, عادل شاہ زیب
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

برطانوی عوام کی اکثریت کا ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ تو سنا دیا لیکن برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلنے میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے؟ اور کیا برطانیہ یورپی یونین سے اپنی ہی شرائط پر نکلنے اور ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے گا؟

میں سجاد کریم کا کہنا ہے کہ یورپ کو اب دائیں بازو کی جماعتوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا اور وہ کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہیں جو کہ یورپ کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔
،تصویر کا کیپشنمیں سجاد کریم کا کہنا ہے کہ یورپ کو اب دائیں بازو کی جماعتوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا اور وہ کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہیں جو کہ یورپ کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔

یورپی پارلیمان کے رکن سجاد کریم کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد یورپی یونین اب برطانیہ سے اپنی شرائط پر بات کرے گی اور شرائط وہ ہوں گی جو کہ یورپ کے لیے موزوں ہوں نہ کہ برطانیہ کے لیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یورپی یونین اب ڈرائیونگ سیٹ میں آ کر کنٹرول سنبھالے گی۔‘

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال آئینی بحران سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اب برطانیہ کو یورپی یونین کی مرضی سے مذاکرات کا ایجنڈا اور شرائط طے کرنا ہوں گی۔

برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد پاؤنڈ کی قدر میں کمی آئی ہے جب کہ سٹاک مارکیٹوں میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ بینک آف انگلینڈ اور آئی ایم ایف ریفرینڈم سے پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کر چکے تھے کہ اگر برطانیہ یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلے کرتا ہے تو برطانوی معیشت افراط زر کا شکار ہو سکتی ہے۔

لیکن برطانوی ہوم آفس کے وزیر وزیر لارڈ طارق احمد کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی طور پر برطانوی عوام کے اس فیصلے کے لیے بھی تیار تھے۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی حکومت کی اولین ترجیح یہی ہے کہ معیشت کو مستحکم رکھا جائے تا کہ برطانیہ کی مارکیٹ پر اعتماد قائم رہے۔

 برطانوی ہوم آفس کے وزیر وزیر لارڈ طارق احمد کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی طور پر برطانوی عوام کے اس فیصلے کے لیے بھی تیار تھے
،تصویر کا کیپشن برطانوی ہوم آفس کے وزیر وزیر لارڈ طارق احمد کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی طور پر برطانوی عوام کے اس فیصلے کے لیے بھی تیار تھے

یورپی یونین کے معاہدے کے آرٹیکل 50 کے تحت کوئی بھی رکن ملک ای یو چھوڑنے کی درخواست دے سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد اس ملک اور ای یو کے درمیان ، یونین چھوڑنے کی شرائط طے کرنا ہونی ہوں گی۔ برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد برطانیہ کو دو سالوں کے اندر یورپی یونین سے نکلنا ہوگا۔ ڈیوڈ کیمرون نے اپنا عہدہ چھوڑنے کےاعلان کے ساتھ کہا ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کا اگلا مرحلہ نئے وزیر اعظم شروع کریں گے۔

یورپی یونین چھوڑنے کے بعد بھی برطانیہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اسے یورپ کی آزاد مارکیٹ تک رسائی حاصل رہے گی کیونکہ ناروے کو یورپی یونین کا ممبر نہ ہونے کے باوجود یہ رسائی حاصل ہے۔ لیکن اس بات کا دارومدار اس پر ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کی کتنی بہتر ڈیل حاصل کر سکے گا۔

برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد پاؤنڈ کی قدر میں تیزی سے کمی  آئی ہے جب کہ سٹاک مارکیٹوں میں بھی شدید مندی کا رجحان ہے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنبرطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد پاؤنڈ کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے جب کہ سٹاک مارکیٹوں میں بھی شدید مندی کا رجحان ہے

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے نئے وزیراعظم کے لیے یورپی یونین سے بہتر ڈیل حاصل کرنا بھی ایک سخت چیلنج ہو گا۔

برطانوی عوام کی اکثریت کے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے کے بعد کیا یورپ کے دیگر ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی یورپ سے علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں سجاد کریم کا کہنا تھا کہ یورپ کو اب دائیں بازو کی جماعتوں کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوگا اور وہ کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہیں جو کہ یورپ کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔