پناہ گزینوں کا بحران: سابق ججوں کی برطانیہ پر نکتہ چینی

،تصویر کا ذریعہGetty
برطانیہ کے بعض سرکردہ سابق ججوں، وکلا اور سرکردہ شخصیات نے پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق برطانوی حکومت کے اقدامات کو ناکافی بتا کر اس پر نکتہ چینی کی ہے۔
اس مسئلے پر لکھےگئے ایک خط پر برطانوی سپریم کورٹ کے سابق سربراہ لارڈ فلپ اور سرکاری وکلا کی تنظیم کے ڈائریکٹر لارڈ میکڈانلڈ جیسی 300 اہم شخصیات نے دستخط کیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ پیشکش کہ آئندہ پانچ برس میں وہ 20 ہزار افراد کو قبول کرےگی، کافی نہیں ہے۔ ایک سرکاری وکیل کا کہنا تھا ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ، جو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے معروف تھا، اب اپنے راستے اور روایت سے ہٹ چکا ہے۔
اس سلسلے میں لکھے گئے ایک خط پر تین ہزار سے بھی زائد وکلا اور ریٹائرڈ ججوں نے دستخط کیے ہیں۔ اس پر انسانی حقوق کے لیے یوروپیئن کورٹ کے سابق جج نکولس براتاز کے بھی دستخط ہیں۔

،تصویر کا ذریعہepa
بی بی سی کے قانونی امور کے نمائندے کلائیو کولمین کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر سابق ججوں کی جانب سے اس طرح کھل کر نکتہ چینی کرنا بہت ہی غیر معمولی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’آج کا بیان وزنی اور دو ٹوک ہے۔ پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق حکومت کی کارکردگی کو پوری طرح سے ناکافی بتانا اور پانچ برسوں میں 20 ہزار شامی مہاجرین کو بسانے کی بات بہت ہی کم، بہت ہی سست اور سطحی بتانا دو ٹوک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیان اس پر دستخط کرنے والی شخصیات کی وجہ وزنی سے ہے جس پر چار سابق لارڈز اور چار سابق ججوں سمیت کئی سرکردہ وکلا نے دستخط کیا ہے۔
وکلا کے گروپ نے اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی ہیں، جیسے یورپ آنے کے لیے ایک محفوظ اور قانونی راستے کا قیام۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ایسے پناہ گزينوں کے لیے ’انسانی بنیادوں پر ویزے‘ کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ لوگ یورپ آنے کے لیے خطرناک راستوں کا استعمال نہ کریں۔

،تصویر کا ذریعہReuters







