بے وفائی ایک ارب ڈالر کی تجارت؟

،تصویر کا ذریعہAFP
نوئل بائیڈرمین کسی معمولی ٹیکنالوجی کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نظر آتے ہیں جو اپنی تقریر میں ’انتشار اور خلل‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے صرف ایک بزنس کی ہی نہیں بلکہ ’سماجی تبدیلی‘ کی بنیاد رکھ دی ہے۔
سنہ 2001 میں ایشلی میڈیسن نامی ویب سائٹ کی بنیاد رکھنے والے نوئل کہتے ہیں کہ وہ ’خواتین کو مردوں کے برابر آنے میں آسانیاں پیدا کررہے ہیں۔‘
کینیڈا کی یہ ڈیٹنگ ویب سائٹ بے وفائی کرنے والے شادی شدہ جوڑوں کی اپنی ٹیگ لائن ’زندگی مختصر ہے، معاشقہ کریں‘ سے ہمت افزائی کرتی ہے۔
سپورٹس کے سابق وکیل بائیڈرمین کا کہنا ہے کہ انھیں اکثر و بیشتر اپنے موکلوں کی بے وفائیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نمٹنا پڑتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ خواتین کو مردوں کے برابر لائیں۔ وہ یہ برابری تنخواہ یا تعلیم کے میدان میں نہیں لانا چاہتے بلکہ جس رفتار سے مرد بے وفائی کرتے ہیں وہ بھی اس رفتار سے انھیں دھوکہ دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مردوں کے لیے قحبہ خانوں سے لے کر ایسکورٹ ایجنسیوں تک بہت سے دروازے کھلے ہیں۔ اس لیے میں اسی طرح خواتین کے لیے بھی سہولیات فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں۔‘

،تصویر کا ذریعہashley
اسی لیے انھوں نے اپنی سائٹ کا نام ایشلی میڈیسن رکھا ہے جو اس وقت امریکہ میں لڑکیوں کے دو مشہور ترین نام ہوا کرتے تھے۔
خواتین کے لیے مساوات سے قطع نظر ان کا یہ خیال کہ بے وفائی منافع بخش کاروبار ہو سکتا ہے، اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کی ڈیٹنگ ویب سائٹ نے گذشتہ سال مردوں سے سبسکرپشن کے ذریعے 15 کروڑ امریکی ڈالر کمائے، جبکہ خواتین کے لیے ان کی ویب سائٹ مفت خدمات فراہم کرتی ہے۔
اہم سوال یہاں یہ ہے کہ کیا اس فریب دینے والی کمپنی میں کوئی کھلے عام سرمایہ کاری کرنا چاہے گا جو اب لندن میں اپنے حصص کے فروخت کے ذریعے 20 کروڑ ڈالر اکٹھا کرنا چاہتی ہے اور جس کی بدولت اس کی قدر تقریباً ایک ارب ڈالر ہو گی؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ بائیڈرمین اور ان کی پیٹرن کمپنی ایوڈ لائف میڈیا نے پبلک شیئر کی بات کی ہے۔
خیال رہے کہ ایوڈ لائف میڈیا کمپنی کوگر لائف ڈاٹ کام، سٹیبلشڈمن ڈاٹ کام اور دا بگ اینڈ دا بیوٹیفل ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ بھی چلاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
سنہ 2011 میں اس کمپنی نے اپنے شہر ٹورونٹو میں اسے لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ٹورونٹو سٹاک ایکسچینج اور صارفین کی جانب سے انکار کے بعد اسے اپنی پیشکش واپس لینی پڑی تھی۔
بائیڈرمین اس کی ناکامی کا سبب نازک مزاجی اور وقت کو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت یہ سائٹ 46 ممالک میں سرگرم عمل ہے اور عالمی سطح پر اس کے تین کروڑ رکن ہیں جبکہ اس وقت وہ صرف امریکہ اور کینیڈا میں تھی۔
ان کے خیال میں لندن بہتر ہے کیونکہ یہ شہر ’گناہ اور متنازع تجارت‘ کے بارے میں روادار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تجارت میں سب سے بڑھ کر ایک ہی مقصد ہونا چاہیے اور وہ ہے صارفین کا منافع۔ وہ یہاں سماجی کام کے لیے نہیں کر رہے۔‘
حال میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے تمباکو یا دوسری بالغ تفریحات کے شعبے میں منافع زیادہ ہوتا ہے۔ لندن بزنس سکول کے محققوں کا کہنا ہے کہ ایسا شاید اس لیے ہے کہ صارفین اسے مسترد کر دیتے ہیں اور ان کی قیمت مصنوعی طور پر کم ہو جاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGleeden
ایک دوسرے مطالعے میں پایا گیا ہے کہ گناہ والے سٹاک میں سالانہ 19 فی صد تک منافع ملتا ہے۔
تاہم مسٹر بائیڈرمین کا خیال ہے کہ بے وفائی کے بارے میں سماج میں پائے جانے والے رجحان کے تحت انھیں اپنا یہ ارادہ ترک کرنا پڑ سکتا ہے۔
’میرے خیال میں بدقسمتی سے وفا کی اخلاقی قدر ٹوٹنا ہی بس رہ گیا ہے۔ ہم نسلی رشتے کے بارے میں مطمئن ہو چکے ہیں ہم جنس پرستی سے ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔‘
بی بی سی نے جب اس معاملے پر بعض صارفین اور تجزیہ کاروں سے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے یا تو کوئی جواب نہیں دیا یا پھر کھلے عام کچھ کہنے سے انکار کیا۔







