بحیرۂ روم میں کشتی ڈوبنے سے 650 افراد کی ہلاکت کا خدشہ

لیبیا کی سمندری حدود میں جاری امدادی کارروائیوں میں اٹلی اور مالٹا کی بحریہ سمیت نجی جہاز بھی حصہ لے رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنلیبیا کی سمندری حدود میں جاری امدادی کارروائیوں میں اٹلی اور مالٹا کی بحریہ سمیت نجی جہاز بھی حصہ لے رہے ہیں

بحیرۂ روم میں ایک مسافر کشتی کے ڈوبنے کے بعد اس پر سوار 650 سینکڑوں تارکینِ وطن کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

اطالوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کشتی جس پر 700 افراد سوار تھے سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب اطالوی جزیرے لمپیدوسا کے جنوب میں لیبیا کے ساحل کے قریب ڈوبی اور اب جائے حادثہ پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

حکام کے مطابق اب تک 24 لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ صرف 50 افراد کے ہی زندہ بچنے کی اطلاعات ہیں۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اگر ہلاکتوں کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ بحیرۂ روم میں پیش آنے والے المناک ترین حادثوں میں سے ایک ہوگا۔

اطالوی کوسٹ گارڈ کے ترجمان نے بتایا کہ تارکینِ وطن سے بھری، مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والی کشتی لبییا کے ساحل سے 27 کلومیٹر اور اطالوی ساحل سے 210 کلومیٹر دور ڈوبی۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ کشتی اس وقت ڈوبی جب ایک تجارتی جہاز کو قریب دیکھ کر کشتی کے زیادہ تر مسافر ایک جانب جمع ہوگئے جس سے اس کا توازن بگڑا اور وہ الٹ گئی۔

کوسٹ گارڈ کے ترجمان کے مطابق ابھی یہ تلاش اور بچاؤ کا آپریشن ہے مگر بعد میں لاشوں کی تلاش کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔

 اس سال ابھی تک افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے کی کوشش میں مرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن اس سال ابھی تک افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے کی کوشش میں مرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے

حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں 20 کشتیاں اور تین ہیلی کاپٹر حصہ لے رہے ہیں۔

لیبیا کی سمندری حدود میں جاری ان امدادی کارروائیوں میں اٹلی اور مالٹا کی بحریہ سمیت نجی جہاز بھی شریک ہیں۔

اٹلی کے وزیرِ اعظم میتیو رینزی نے بحیرۂ روم میں تارکینِ وطن کی ہلاکتوں کو ایک ایسا قتلِ عام قرار دیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔

مالٹا کے وزیرِ اعظم جوزف مسکاٹ نے کہا ہے کہ اگر یورپ اور عالمی برادری اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بحیرۂ روم عبور کرنے والے تارکینِ وطن کے بحران کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی تو تاریخ انھیں معاف نہیں کرے گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب یہ بحران انتہائی گمبھیر شکل اختیار کر چکا ہے اور اگر دنیا نے اسے نظرانداز کرنا جاری رکھا تو تاریخ اس معاملے میں یورپ کی ناکامی کو ایسے ہی دیکھے گی جسے گذشتہ صدی میں انسانی نسل کشی پر یورپی ردعمل کو دیکھا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں بحیرۂ روم پار کرنے کی کوشش کرنے والے تقریباً دس ہزار تارکین وطن کو بچایا بھی گیا ہے

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنحالیہ دنوں میں بحیرۂ روم پار کرنے کی کوشش کرنے والے تقریباً دس ہزار تارکین وطن کو بچایا بھی گیا ہے

جوزف مسکاٹ نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انتہائی اہم ہے کہ لیبیا میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جائے جو کہ یورپ کے دہانے پر موجود ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔

یورپی کمیشن نے بھی اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ یورپی یونین کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کارروائی کرے۔

خیال رہے کہ اس حادثے کے بعد اس سال ابھی تک افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے یورپ جانے کی کوشش میں مرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے۔

حالیہ دنوں میں بحیرۂ روم پار کرنے کی کوشش کرنے والے تقریباً دس ہزار تارکین وطن کو بچایا بھی گیا ہے اور اٹلی نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین سے مزید مدد مانگی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ برس افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات اور غربت سے تنگ آ کر ایک لاکھ 70 ہزار افراد نے غیرقانونی طور پر اٹلی کا رخ کیا تھا۔

موسم میں بہتری کے ساتھ ہی رواں برس ایسے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے جو 500 کلومیٹر کے اس سمندری سفر پر نکلے ہیں۔