ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کرے گا: حسن روحانی

،تصویر کا ذریعہpresident.ir
ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کی شرائط پر اس وقت تک عمل پیرا ہوتے رہیں گے جب چھ عالمی طاقتیں بھی ایسا ہی کریں گی۔
قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب میں انھوں نے کہا: ’دنیا کو جان لینا چاہیے کہ ہم دھوکہ نہیں دینا چاہتے۔‘ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر عالمی طاقتوں نے ’کسی دن کسی اور راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا‘ تو ایران بھی اپنے لائحۂ عمل کا انتخاب کرے گا۔
جمعرات کو معاہدے کے فریم ورک پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ایران جوہری سرگرمیاں محدود کر دے گا اور ان کے بدلے میں اس پر عائد پابندیاں مرحلہ وار ختم کر دی جائیں گی۔

،تصویر کا ذریعہAP
اس سے قبل اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے خبردار کیا تھا کہ یہ معاہدہ پورے خطے اور خاص طور پر اسرائیل کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہے۔
انھوں نے کہا: ’اسرائیل کسی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کرتا جو کسی ملک کو ہمیں تباہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار بنانے کے اجازت دے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
صدر روحانی نے یہ بات دہرائی کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس معاہدے سے ظاہر ہو گا کہ ایران ’دنیا کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایران کے ’دو چہرے نہیں ہیں،‘ اور اگر پی فائیو پلس ون (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی) نے حتمی معاہدے کی پاسداری کی تو ایران بھی ویسا ہی کرے گا۔
صدر روحانی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ ایران کو اپنی سرزمین پر یورینیئم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے، اور یہ افزودگی کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا: ’افزودگی اور ہماری تمام جوہری ٹیکنالوجی صرف ایران کی ترقی کے لیے ہیں۔ یہ دنیا کے کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔‘
2006 سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے چھ قراردادیں منظور کر رکھی ہیں جن میں ایران سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جوہری سرگرمیاں بند کرے۔
صدر روحانی نے کہا: ’آج کا دن ایرانی تاریخ میں یادگار رہے گا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ جنگ لڑیں یا پھر عالمی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز نہیں ہو گی، اور ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔‘
جمعرات کی رات معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد کئی لوگ تہران کی سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر بھی معاہدے کی حمایت میں تبصرے کیے۔








