پیرس حملوں کے بعد اسلامو فوبیا میں اضافہ

،تصویر کا ذریعہAP
- مصنف, قندیل شام
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پیرس
محبتوں کا شہر پیرس آج کل خوف کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔ جا بجا مشین گنوں سے لیس فوجی نظر آتے ہیں جن میں سے بہت سے مذہبی عمارتوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کو وہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جو مسجدوں اور یہودی عبادت گاہوں کے دروازوں پر ہمدردی اور یکجہتی کے احساسات پر مبنی پیغام چپکاتے نظر آتے ہیں۔
خدشہ یہ ہے کہ چارلی ایبڈو پر حملوں کے بعد فرانس میں شروع ہونے والی بحث کہیں سماجی تقسیم کی شکل اختیار نہ کر جائے۔
تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک اصل جنگ شہر میں محبت کی فضا کو واپس لانے کی ہے۔
دریائے سین کے کنارے سے پیرس کا دلفریب اور پرشکوہ منظرتمام دنیا میں رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ عام طور پر اس شہر میں تاریخ دان، فنون رومانس اور اسرار کی ایک مسحورکن خوشبو پھیلی ہوتی ہے جو دل کو موہ لیتی ہے۔
تاہم اس شہر کی ہوا میں آج کل ایک مخصوص خطرہ اور بے چینی محسوس ہوتی ہے، جس کی سب سے واضح شکل بھاری اسلحے سے لیس وہ فوجی ہیں جو چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔

اور اس صورتِ حال میں ٹھیک سے پتہ نہیں چلتا کہ آزادیوں میں مداخلت سے ناواقف اور ہر طرح کی روک ٹوک سے بے نیاز طرزِ زندگی کے لیے مشہور، فرانس، کہاں گم ہے۔
محبتوں کے شہر کے باسیوں کے لیے یہ بذات خود ایک تکلیف دہ نظارہ ہے۔ لیکن کیا خوف کا پھیلاؤ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ ان فوجیوں کا؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
فرانس کے طنزیہ رسالے چارلی ایبڈو، پولیس افسروں اور کوشر سپر مارکیٹ پر حملہ کے بعد حکومت نے دس ہزار فوجیوں کو عوامی مقامات، حساس عمارتوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت پر لگایا ہے۔ سات سے 9 جنوری تک ہونے والی اس دہشت گردی میں 17 لوگ ہلاک ہوئے جن میں صحافی، پولیس اہلکار، سرکاری خدمت گار اور کوشر مارکیٹ کے چار یہودی گاہک بھی شامل تھے۔
فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان اورتقریباً چھ لاکھ یہودی آباد ہیں جو یورپ میں ان مذہبی اقلیتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ تین ہفتے پہلے ہونے والے حملے نے ملک کو اس مشکل سوال سے دوچار کر دیا ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کا کیا مقام اور مرتبہ ہے۔
یوں لگتا ہے کہ خوف کے ایک جال نے ہر نقطۂ نظر کے حامل فرانسیسی کو اپنی گھیرے میں لے لیا ہے۔ ہائی سکیورٹی الرٹ کے ساتھ ساتھ ملک کے یہودی شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اسرائیل میں نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ فرانسیسی مسلمان بھی پریشان ہیں کہ اسلام مخالف جذبات میں اضافے کے سبب انھیں ان حملوں کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔

پیرس حملوں کے بعد کم از کم 50 ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں فائرنگ، اسلامی عمارتوں پر دستی بم سے حملے کے ساتھ ساتھ دھمکیوں اور تذلیل جیسے واقعات شامل تھے۔
17 جنوری کو مراکش کے ایک شہری پر اس کے ہمسائے نے چاقو کے وار کیے۔ 17 بار جاقو کے وار کرنے سے قبل حملہ آور چلایا ’میں تمھارا خدا ہوں، میں تمھارا اسلام ہوں۔‘
ماہ رخ آصف ایک حجاب پوش پاکستانی لڑکی ہے جو محسوس کرتی ہیں کہ ’ پیرس حملہ کے بعد اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا ہے‘۔
اس سے پہلے فرانس میں پلنے بڑھنے والی ماہ رخ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی گو تعصبات موجود تھے۔
’جب میں نےدو برس پہلے حجاب پہننا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ لوگ مجھے مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے تو مجھ سے بات تک کرنا ترک کردی‘۔
ماہ رخ فرانس کے ان کئی مسلمانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے چارلی ایبڈو پر حملہ کی مذمت کی۔ لیکن انھیں محسوس ہوا کہ جب رسالے نے حملے کے ایک ہفتہ بعد دوبارہ پیغمبرِ اسلام کے کارٹون شائع کیے تو یہ ان تمام مسلمانوں کی تذلیل تھی جنھوں نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔

’کئی مسلم ممالک نے حملوں کی مذمت کی، اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ دکھایا کہ وہ انسانیت کے ساتھ ہیں لیکن جب چارلی ایبڈو نے دوبارہ کارٹون شائع کیے تو یہ بالکل ایسے تھا جیسے اسے ان مسلم ممالک کی جانب سے دکھائے گئے احترام کی کوئی قدر نہ ہو۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا، فرانس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، اس کی وجہ سے تقسیم میں اضافہ ہوا۔‘
جسٹین بوشے وزارتِ انصاف میں کام کرتی ہیں اور حملوں سے کچھ ہفتے قبل انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ انہیں بھں پریشانی لاحق ہے کہ خوف کی فضا نے پھیلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں لوگوں کو کیفے میں نماز پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔ والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے سے ڈر رہے ہیں۔‘
اہک نوجوان مسلم وکیل کا کہنا ہے کہ اسے یہ ناانصافی محسوس ہوئی کہ حملوں کے بعد ریاست کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہودیوں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی گارڈ بھیجے گئے۔ اس دوران ’مسجدوں پر حملے ہو رہے تھے لیکن حکومت کو کوئی فکر نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد دفتر داخلہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے اقدامات بھی کرے گا۔‘

میں نے ایک سائناگوگ کا دورہ بھی کیا جو پیرس کے وسط میں واقع ایک غیر اہم سی عمارت تھی۔
واحد نشانی جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ ایک عبادت گاہ ہے۔ وہاں چھ رائفل بردار فوجی تھے جو اس کی حفاظت پر مامور تھے۔ ایک فرانسیسی یہودی نے مجھے بتایا کہ ’یقیناً ہم خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں گلیوں میں گھورا جاتا ہے اور میٹرو میں ہم پر توہین آمیز فقرے داغے جاتے ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ حملوں نے اس مسئلے کو محض نمایاں کیا ہے ورنہ مسلم انتہا پسند کافی عرصے سے ہمارے لیے ایک خطرہ ہیں۔‘
نو جنوری کو کوشر سپر مارکیٹ میں چار یہودی گاہکوں کو ہلاک کیا گیا۔ سنہ2012 میں فرانس کے شہر طولوژ کے ایک سکول میں تین یہودی بچوں اور ایک راہب کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ درحقیقت، یہودی جو فرانس کی کل آبادی کا ایک فیصد ہیں، نسلی امتیاز پر مبنی آدھے حملے صرف انھی کے خلاف کیے جاتے ہیں۔
مجھے بتایا گیا کہ فرانس میں یہودیت مخالف جذبات میں اضافے کے خوف سے پیرس حملوں کے بعد ’کئی یہودی ملک چھوڑ گئے ہیں اور کئی ایسا سوچ رہے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہAP
بظاہر یہی لگتا ہے کہ فرانسیسی یہودیوں میں اسرائیل ہجرت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ برس دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ فرانس کے یہودیوں نے ملک سے ہجرت کی۔ حالیہ حملوں کے بعد اس رجحان میں اضافہ کی توقع ہے۔
دہشت گردوں کا مقصد یہ ہے کہ دہشت پھیائی جائے اور لگتا ہے کہ کم از کم اس حوالے سے دہشت گردوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔
اور یہی وہ خوف ہے جو ذیادہ تر فرانسیسیوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ کیا وہ اس پر قابو پا سکیں گے یا یہ محبتوں کے اس شہر پر ہمیشہ کے لیے غالب آ جائے گا؟







