شام میں خراسان گروپ کے خلاف امریکی فضائی کارروائی

امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے شام کے شمال مغربی علاقے میں القاعدہ سے منسلق خراسان گروپ کے شدت پسندوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ گروپ افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والےتجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔
امریکی فضائی حملوں میں ترکی کے ساتھ شام کی سرحد کے قریب خراسان گروپ کے پانچ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں گاڑیاں اور عمارتیں شامل ہیں۔
برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیم آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ان حملوں میں کئی شدت پسند اور دو بچے ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کی یہ تنظیم شام میں تشدد کے واقعات پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
یہ دوسری دفعہ ہے کہ امریکی فضائی حملوں میں خراسان گروپ کو ہدف بنایا گیا ہے جس پر امریکہ اور یورپ میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے الزامات ہیں۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا کہ جمعرات کو سرمدہ میں کیے جانے والے فضائی حملوں میں ان عمارتوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا جنھیں تربیت اور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ ان حملوں میں ایک فرانسیسی شدت پسند ڈیوڈ ڈریجیون بھی نشانہ پر تھے جنھوں نے شدت پسند گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اہلکار نے بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ فرانسیسی شدت پسند فضائی کارروائی میں ہلاک ہوئے یا نہیں لیکن ’میرے خیال میں نشانہ بنے۔‘
خراسان گروپ کے بارے میں کم ہی معلومات سامنے آئیں ہیں لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گروپ افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
تجربہ کار جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو القاعدہ کے شام کے شاخ النصریٰ فرنٹ میں گل مل گیا ہے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا کہ یہ گروپ بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے بجائے مغربی ممالک پر حملوں کے لیے شام کی سرزمین کو اپنے ٹھکانے کے طور استعمال کر رہا ہے۔
دولتِ اسلامیہ پر امریکی فضائی حملوں کے دوران اس گروپ پر پہلا حملہ 23 ستمبر کو کیا گیا تھا۔







