یوکرین:صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ جاری

،تصویر کا ذریعہReuters
یوکرین میں مہینوں سے جاری بحران اور سابق صدر وکٹر یانوکووچ کی برطرفی کے بعد نئے صدر کے انتخاب کے لیے آج ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
ان صدارتی انتخابات میں 18 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جسے ملک کو متحد رکھنے کا اہم لمحہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم یوکرین کے مشرق میں موجود روس نواز علیحدگی پسندوں نے صدارتی انتخاب کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹنگ میں خلل ڈالنے کی دھمکی دی ہے۔
یوکرین میں حالیہ دنوں حکومتی افواج اور باغیوں میں ہونے والی لڑائی میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ملک مشرقی علاقے دونیتسک اور لوہانسک میں ہونے والے پر تشدد واقعات نے انتخابات کی تیاریوں کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔
واضح رہے کہ فروری میں سابق صدر کی روس نواز پالیسیوں کے خلاف عوامی مظاہروں کے نتیجے میں یانوکووچ کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
ان کی برطرفی کے بعد اب وہاں صدارتی انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAFP
اطلاعات کے مطابق ان انتخابات میں کنفکشنری کے بڑے تاجر پیٹرو پروشینکو کے لیے جیت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ انھیں ملک میں ’چاکلیٹ کنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
رائے عامہ میں سابق وزیراعظم یولیا تائموشنکو ’چاکلیٹ کنگ‘ پروشینکو سے پیچھے بتائے جا رہے ہیں۔
ان انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 50 فی صد ووٹ ملنا چاہیے بہ صورت دیگر فاتح کے انتخاب کے لیے 15 جون کو پھر سے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
وزیرِاعظم آرسنیات سنوک نے ہفتے کو اپنے ٹی وی خطاب میں لوگوں سے ’یوکرین کے دفاع‘ کے لیے ووٹ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے کہا ’اس سے مغرب و مشرق اور شمال و جنوب ہر جانب سے یوکرین کے باشندوں کے جذبات کا اظہار ہوگا۔‘
دریں اثنا روس کے صدر ولادی میر پوتن نے جمعے کو پہلی بار کہا کہ وہ نتائج کا احترام کریں گے اور جو بھی صدر منتخب ہوگا اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

،تصویر کا ذریعہg
پوتن نے یوکرین میں رواں ماہ منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کو ’درست سمت‘ کی جانب قدم قرار دیا ہے۔
کیئف اور اس کے حامی مغربی ممالک روس پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ روس یوکرین کے مشرقی علاقوں میں علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے تاہم صدر پوتن ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
یورپ کی تنظیم برائے سلامتی اور تعاون (او ایس سی ای) نے پولنگ سٹیشنوں پر اپنے ایک ہزار سے زیادہ مبصرین تعینات کیے ہیں تاہم سلامتی کے پیشِ نظر او ایس سی ای نے اپنے زیادہ تر مبصرین مشرقی دونیتسک کے علاقے سے ہٹا لیے ہیں۔
بعض روس نواز علیحدگی پسندوں نے لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے باز رہنے کی دھمکی دی ہے اور حکام سے ووٹر لسٹ چھینے جانے کی اطلاعات ہیں۔

،تصویر کا ذریعہ
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خود ساختہ دونیتسک پیپلز ریپبلک کے ایک رہنما ڈینس پشیلین نے کہا ہے کہ ’اگر ضرورت ہوئی تو ہم طاقت کا استعمال کریں گے۔‘
دونیتسک اور لوہانسک کے علیحدگی پسندوں نے 11 مئی کو ہونے والے ریفرینڈم کے بعد اپنے علاقوں کی آزادی کا اعلان کر دیا تھا جسے کیئف اور اس کے مغربی حلیف تسلیم نہیں کرتے۔ ان دونوں علاقوں نے کرائمیا کے ریفرینڈم کی طرز پر یہ ریفرینڈم کرائے تھے۔
مارچ میں روس نے کرائمیا کے علاقے کو اپنے ملک میں شامل کر لیا تھا۔
پولنگ کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے 75 ہزار پولیس اور رضاکار تعینات کیے گئے ہیں۔
پولنگ سٹیشن مقامی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے تک کھلے رہیں گے اور اس کے نتائج پیر تک آنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔







