یوکرین بحران: امریکہ کی روس کو معاشی پابندی کی دھمکی

،تصویر کا ذریعہAP
امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر روس یوکرین کے بحران کو کم کرنے کے لیے نئے بین الاقوامی معاہدے کی پابندی نہیں کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کی جائیں گي۔
کرملین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں روس سے ’قصووار طالب علم‘ کا سا سلوک کر رہا ہے۔
دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ نے جمعرات کو ہونے والے جنیوا معاہدے کے بعد اپنے روسی ہم منصب سرگيئی لاوروف سے فون پر بات چیت کی اور معاہدے پر مکمل طور سے فوری عمل کرنے کے لیے زور دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ جان کیری نے یہ واضح کیا ہے کہ ’معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے لیے آنے والے چند روز تمام فریقین کے لیے انتہائی اہم ہونگے۔‘
دوسری جانب یوکرین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایسٹر کے موقعے پر شمال میں ’دہشت گرد مخالف‘ آپریشن کو روک دیا جائے گا۔
روس حامی علیحدگی پسندوں نے ان علاقوں کے کئی شہروں میں سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو کہ معاہدے کی ایک اہم شرط کی خلاف ورزی ہے۔
روس، یوکرین، یورپی یونین اور امریکہ نے جنیوا میں بات چیت کے دوران اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ غیر قانونی عسکری گروہوں کو ختم کیا جانا چاہیے اور جنھوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رکھا ہے ان کے اسلحے لے لیے جانے چاہیں اور انھیں عمارت کو خالی کردینا چاہیے۔
فریقین نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ تمام حکومت مخالف مظاہرین کو عام معافی حاصل ہوگی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
تاہم مظاہرین کے سیکریٹری نے دونیتسک شہر میں کہا کہ کیئف کی حکومت غیر قانونی ہے اور عہد کیا کہ وہ اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک کہ حکومت اقتدار نہیں چھوڑتی۔
مظاہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کئیف کے میدان سکوائر میں خیمہ زن وہ مظاہرین پہلے اپنے کیمپ ختم کریں جنھوں نے روس نواز سابق یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے معاہدے کا محتاط انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے اب روس پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں سرکاری عمارتوں پر قابض علیحدگی پسندوں پر اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرے۔
جمعے کو امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہا تو نئی اقتصادی پابندیوں پر غور کیا جائے گا جو ان کے مطابق ’روسی معیشت کے اہم شعبے‘ پر مرکوز ہوگا۔
انھوں نے واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ روس ان عناصر پر خاصا اثر رکھتا ہے جو مشرقی یوکرین میں عدم استحکام کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہAP
سوزن رائس نے کہا کہ ’اگر ہم روس کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو ہم اور ہمارے یورپی ساتھی روس پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہیں۔‘
اس امریکی بیان کے ردعمل میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ’آپ روس سے ایک قصوروار طالبعلم کی طرح کا سلوک نہیں کر سکتے کہ جسے دکھانا ہو کہ اس نے ہوم ورک کر لیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی زبان قابل قبول نہیں ہے۔
خیال رہے کہ یوکرین میں روس نواز حکومت گرنے کے بعد سے کشیدگی جاری ہے۔ حکومت گرنے کے بعد یوکرین کے علاقے کرائمیا نے روس سے الحاق کر لیا تھا۔ کرائمیا میں عوام کی اکثریت روسی زبان بولتی ہے۔ روس کے اس اقدام پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا اور اب وہ نو شہروں میں سرکاری عمارتوں پر قابض ہیں۔







