اخوان المسلمین کی ’سرگرمیوں‘ پر پابندی

مصر میں ایک عدالت نے معزول صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کی ’تمام سرگرمیوں‘ پر پابندی کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اخوان، اس کی غیر سرکاری تنظیم اور اس سے وابستہ ہر تنظیم پر لاگو ہوتا ہے۔
عدالت نے عبوری حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اخوان المسلمین کے اثاثے قبضے میں لے کر اس سلسلے میں کسی اپیل کی سنوائی تک اس کی نگرانی کے لیے ایک پینل تشکیل دے۔
ملک کی فوج نے صدر مرسی کو اس سال تین جولائی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا تھا۔
اخوان المسلمین کے اہم رہنما محمد بدیع سمیت کئی سینیئر اراکین تشدد اور قتل و غارت پر اکسانے کے الزام میں حراست میں ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
85 سال پرانی اسلامی جماعت پر مصر کی فوج نے 1954 میں پابندی عائد کر دی تھی۔ اخوان المسلمین کے مخالفین نے اس کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کر رکھا تھا جس کے نتیجے میں جماعت نے رواں سال مارچ میں خود کو ایک این جی او کے طور پر رجسٹر کروا لیا تھا۔
اخوان المسلمین کا قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی ونگ ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ 2011 میں اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب حسنیٰ مبارک کو مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے علیٰحدہ ہونا پڑا تھا۔
صدر مرسی کی معزولی اور آئین کی معطلی کے بعد قاہرہ میں انتظامی عدالت کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی قانونی حیثیت پر نظرثانی کرے۔
اخوان المسلمین کے رہنما ابراہیم منیر نے اس فیصلے کو ’مطلق العنانانہ فیصلہ‘ قرار دیا اور زور دے کر کہا کہ اس سے ان کی تنظیم غائب نہیں ہو گی۔
انہوں نے الجزیرہ مباشر مصر ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ ’یہ خدا کی مدد سے قائم رہے گی نہ کہ جنرل السیسی کی عدالتوں کے فیصلوں سے۔‘







