مصر: صدر اور عدلیہ کے درمیان سمجھوتے کے اشارے

مصر کی اسلامی حکومت کی طرف سے ججوں کی مدتِ ملازمت میں کمی کے قانون کی منظوری کے بعد حکومت اور عدلیہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں۔
تاہم صدارتی دفتر کا کہنا ہے کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے صدر اور عدلیہ کے درمیان ممکنہ طور پر سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔
مصر کے صدر محمد مرسی جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کا ملک کی عدلیہ سے تناؤ جاری ہے۔
ان کی حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون منظور کروایا ہے جس کے تحت ججوں کی طرف سے صدارتی احکامات کو ختم کرنے کے عدالتی اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے اور ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر کو ستر سال سے گھٹا کر ساٹھ سال کر دیا ہے۔
مصر میں تیرہ ہزار جج ہیں اور اس قانون سے پچیس فیصد جج متاثر ہوں گے اور تین ہزار سے زیادہ جج اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اخوان المسلمین اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مصر کی عدلیہ سابق صدر حسنی مبارک کے وفاداروں سے بھری پڑی ہے اور اس میں چھانٹی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر مرسی کی حامیوں نے عدلیہ کو سابق صدر حسنی مبارک کے حامیوں سے پاک کرنے کے حق مظاہرے کیے۔
صدر مرسی نے اتوار کے روز اعلی عدلیہ کے پانچ ججوں سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے بعد صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ عدلیہ اور حکومت کے مابین معاملات طے پا گئے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
صدارتی دفتر کے مطابق عدلیہ کی تحفظات پر غور کر لیے رواں ہفتے ایک کانفرنس کا انعقاد ہو گا اور صدر مرسی اس کانفرنس کی تمام تجاویز کو مان لیں گے۔
ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل کے صدر محمد ممتاز کی جانب سے بھی اسی قسم کا ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔
عدالتی ذرائع کے مطابق سمجھوتے کے تحت کانفرنس کے انعقاد تک یہ متنازع بل منجمد تصور ہوگا اور کانفرنس میں ایک نیا مسودۂ قانون پیش کیا جائے گا۔







