بنگلہ دیش: جنگی جرائم کے الزامات

بنگلہ دیش میں سنہ انیس سو اکہتر میں پاکستان کے خلاف جدِ و جہدِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ ٹربیونل نے ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت کے ایک سینیئر رہنما کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں۔
ٹریبونل نے دلاور حسین سعیدی پر دیگر جرائم کے علاوہ قتل عام اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم دلاور حسین تمام الزامات کی صحت سے انکاری ہیں۔
مسٹر سعیدی بنگلہ دیش کی بڑی جماعت، جماعتِ اسلام کے سینیئر رہنما ہیں جنھیں گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔
ٹربیونل سنہ دو ہزار دس میں ان افراد پر مقدمات چلانے کے لیے قائم ہوا تھا جن کے خلاف جنگ کے دوران جرائم کے الزامات ہیں۔
دسمبر سنہ انیس سو اکہتر تک آج کے ملک بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ تاہم انیس سو اکہتر کے اوائل میں علیحدگی کے لیے شروع ہونے والی لڑائی نو ماہ تک جاری رہی جس کے دوران بنگلہ دیش کے قوم پرستوں کے مطابق تیس لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔
انٹرنیشنل کرائمز ٹرائیبیونل کے رجسٹرار محمد شاہِ نور اسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عدالت نے دلاور حسین پر بیس الزامات عائد کیے ہیں جن میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی جیسے الزامات ہیں‘۔ مسٹر اسلام کا کہنا تھا ’ان الزامات کے عائد ہونے کے ساتھ ہی مقدمہ شروع ہوگیا ہے اور ایک شہری کی حیثیت سے میں یہ کہوں گا کہ آج بنگلہ دیش کے لیے تاریخی دن ہے۔‘
اس مقدمے کی آئندہ سماعت تیس اکتوبر کو ہوگی جب استغاثہ ابتدائی بیان داخل کرے گا۔
سرکاری اعداد و شمار پر مبنی تخیمنے کے مطابق جب بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک بننے سے روکنے کی کوشش میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان میں فوج بھیجی گئی تو ہزاروں خواتین کو ریپ کیا گیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
گزشتہ برس بنگلہ دیش کی حکومت نے ڈھاکہ میں ٹریبونل قائم کیا تھا تا کہ بنگلہ دیش کے ان شہریوں پر مقدمات چلائے جا سکیں جن پر پاکستانی فوج کے ساتھ ساز باز کر کے کئی ماہ پر محیط تشدد کے ایام میں زیادتیاں کرنے کے الزامات ہیں۔
مسٹر سعیدی ان سات افراد میں شامل ہیں جن پر جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔ ان سات افراد میں سے دو کا تعلق بنگلہ دیش کی بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیشی نیشنل پارٹی سے ہے۔ تمام ملزمان جرم کی صحت سے انکار کرتے ہیں اور یہ الزام عائد کر تے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔
نیو یارک میں ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ٹرائیبونل کو اپنے طریقۂ کار میں کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی تاکہ ملزموں کے ساتھ بین الاقوامی معیار کے مطابق انصاف کیا جا سکے۔







