آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
ورلڈ چاکلیٹ ڈے: کیا آپ کی چاکلیٹ کھانے کی عادت ماحول اور لوگوں کو نقصان پہنچا رہی ہے؟
- مصنف, فرنینڈو ڈوئرٹے
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
یہ غالبا دنیا کی سب سے مشہور ضیافت ہے حتیٰ کہ اس کے نام پر عالمی دن بھی رکھا گیا ہے یعنی عالمی دن برائے چاکلیٹ جو ہر سال سات جولائی کو 1550 میں یورپ میں چاکلیٹ کی پہلی بار آمد کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں کہ ہم سالانہ سات ملین ٹن چاکلیٹ کھا جاتے ہیں۔ اگر اس کا حساب لگایا جائے تو زمین کے ہر شخص کے حصے میں ایک کلو چاکلیٹ آتی ہے۔
لیکن اس کا مزہ اپنے اندر کئی تاریک پہلو بھی چھپائے ہوئے ہے جن کی جانب متعدد ڈاکومنٹریز، جن میں 2010 کی ’دی ڈارک سائیڈ آف چاکلیٹ‘ شامل ہے، نے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔
چاکلیٹ انڈسٹری پر کافی عرصے سے جنگلات کے کٹاؤ اور بچوں کے استحصال جیسے مسائل کو ٹھیک کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ چاکلیٹ کا میٹھا ذائقہ کوکو پھلیوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن کی کاشت اور کٹائی میں کم عمر بچوں کے استعمال کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
چاکلیٹ کہاں سے آتی ہے؟
چاکلیٹ انڈسٹری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو بنانے کے لیے درکار کوکو اتنی کثرت میں موجود نہیں ہے۔
کوکو کے درخت کافی حساس ہوتے ہیں جن کو پھلنے پھولنے کے لیے مخصوص درجہ حرارت اور بارش درکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ جنگل کا سایہ بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ سورج کی روشنی اور تیز ہواؤں سے ان درختوں کو بچایا جائے۔ یہ وہ شرائط ہیں جو بہت کم ممالک میں پوری ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے خوراک و زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی افریقہ کے صرف دو ممالک، آئویری کوسٹ اور گھانا، دنیا بھر کے 52 فیصد کوکو بیج کی پیداوار کے ذمہ دار ہیں۔
اسی خطے کے دیگر ممالک، جیسا کہ نائجیریا اور کیمرون، افریقہ کی مجموعی پیداوار 69 فیصد تک لے جاتے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ
ماحولیاتی تبدیلی ایک اہم پریشانی ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور خشک سالی میں طوالت کی وجہ بن سکتی ہے، خصوصاً مغربی افریقہ میں، اور یہی بات یہاں کے کاشت کاروں کے لیے بھی ایک بُری خبر ہے۔
ایک اور مسئلہ جنگلات کا کٹاؤ بھی ہے کیوںکہ کاشتکار نئے درخت لگانے کے لیے اکثر جنگلات کو کاٹنے سے بلکل نہیں ہچکچاتے۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آئیوری کوسٹ میں جنگلات میں کمی کی ایک بڑی وجہ کوکو کی کاشتکاری ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس افریقی ملک میں 50 سال میں 80 فیصد تک جنگلات میں کمی آئی ہے جو دنیا میں کسی بھی مقام پر سب سے تیز تر ریٹ ہے۔
اس کے باوجود اب بھی یہاں جنگلات خطرے میں ہیں۔ امریکی تنظیم مائٹی ارتھ، جو سیٹلائیٹ کی مدد سے جنگلات کا جائزہ لیتی ہے، کے مطابق صرف 2020 میں 470 مربع کلومیٹر کے جنگلات غائب ہو گئے تھے۔
لیکن یہ مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی سے بھی جڑا ہوا ہے جس کے طویل المدتی اثرات یہاں کے کاشت کاروں کی آمدنی کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے۔
ڈاکٹر مائیکل اوڈیجی یونیورسٹی کالج لندن میں محقق ہیں جو افریقہ کی کوکو انڈسٹری پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’اس گول دائرے کی سادہ سی وجہ معیشت ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوکو کی کاشت کاری کی ماحولیاتی قیمت بیش بہا ہے۔ افسوسناک طور پر اس کے باوجود یہ جاری رہے گی کیوںکہ اس کی جنگل میں پیداوار کی لاگت کم ہے۔‘
لیکن چاکلیٹ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ وہ ایسے اقدامات لے رہی ہے جن سے معاملات درست سمت میں جائیں گے۔
امریکی کمپنی مارس، جو دنیا میں چاکلیٹ فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ایسے اقدمات لیے ہیں جن سے کوکو کی سپلائی پائیدار ہو گی اور ان میں جنگلات کے کٹاؤ کے بغیر کوکو کی کاشت کاری بھی شامل ہے جس کے لیے 2025 کا ہدف رکھا گیا ہے۔
بی بی سی کے سوالات کے جواب میں کمپنی نے کہا کہ ’غیر قانونی طور پر تیار شدہ کوکو کی مارس کی سپلائی چین میں کوئی جگہ نہیں۔‘
مارس نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے آئیوری کوسٹ اور گھانا کی حکومتوں کی مدد سے جنگلات کی بحالی پر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت کام شروع کیا ہے۔
بچوں کا استحصال
کوکو کی کاشت کاری میں بچوں اور بڑوں سے جبری مشقت لینے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ 1998 میں اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ نے کہا تھا کہ ہمسایہ ممالک سے بچوں کو منظم انداز میں غیر قانونی طور پر آئیوری کوسٹ پہنچایا جاتا ہے جہاں ان سے کوکو فارمز پر کام کروایا جاتا ہے۔
برطانیہ کی این جی او اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کے مطابق یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جیسیکا ٹرنر جو اس تنظیم کی ترجمان ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر می کوکو کی صنعت میں تقریباً 30 ہزار بڑے اور بچے جبری مشقت کر رہے ہیں۔‘
لیکن وسیع پیمانے پر بچوں سے مشقت کروانا ایک اور مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس اصطلاح کا مطلب ہے کہ ’ہر وہ کام کو بچوں کو ان کے بچپنے سے محروم کر دے۔‘ جس میں ان کی تعلیم چھڑوانا اور انھیں نقصاندہ یا خطرناک حالات میں رکھنا بھی شامل ہے۔
سنہ 2020 میں یونیورسٹی آف شگاکو میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ آئیوری کوسٹ اور گھانا میں کوکو کی کاشت کرنے والے علاقوں میں رہنے والے پانچ میں سے دو بچے نامصائب حالات میں کام کرتے ہیں اور ان کی کام کی جگہوں کو خطرناک قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہاں انھیں تیز آلات، رات کے وقت کام کرنے کے اوقات اور زراعت میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
سنہ 2001 سے ہی چاکلیٹ کی صنعت نے ایک بین الاقوامی معاہدہ کے حصہ کے طور پر کوکو کی پیداوار میں چائلڈ لیبر ختم کرنے سے متعلق وعدہ کر رکھا ہے جسے ہارکن انجل پروٹوکول بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس نے 2020 تک آئیوری کوسٹ اور گھانا میں چائلڈ لیبر میں 70 فیصد تک کمی کرنے کی آخری مدت بھی گزار دی ہے۔
ورلڈ کوکو فاؤنڈیشن، عالمی سطح پر چاکلیٹ کی صنعت میں بڑے اداروں کی چھتری تلے بننے والی اس تنظیم نے بھی اس صنعت میں چائلڈ لیبر کے مسئلے کو تسلیم کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آئیوری کوسٹ اور گھانا میں کوکو کی پیداوار کی صنعت میں تقریباً 16 لاکھ بچے کام کرتے ہیں۔
اپنی ویب سائٹ پر اس تنظیم کا کہنا کہ ہے ’سپلائی چین (کوکو کی پیداوار) میں جبری مشقت، جدید غلامی یا انسانی سمگلنگ کے کسی بھی واقعے کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
اس تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سماجی ترقی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کو بڑھا کر 'کوکو میں چائلڈ لیبر کے خاتمے' کے لیے پرعزم ہے۔‘
اس کا دعویٰ ہے کہ صرف 2019 میں ان پروگراموں کے لیے مختص کی گئی رقم سنہ 2001 سے 2018 تک کی مدت میں مختص کی گئی رقم سے زیادہ تھی۔
بی بی سی نے ورلڈ چاکلیٹ فاؤنڈیشن سے اس متعلق موقف جاننے کے لیے رابطے کیا تاہم اس مضمون کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
کیا جو چاکلیٹ ہم کھاتے ہی اس کی مناسب قیمت ادا کرتے ہیں؟
اس صنعت سے جڑے کچھ لوگوں اور چاکلیٹ انڈسٹری میں استحصال پر آواز اٹھانے والے افراد کے مطابق ہم مناسب قیمت ادا نہیں کرتے ہیں۔
جرمنی میں قائم غیر سرکاری تنظیم انکوٹا، جو چاکلیٹ کی مناسب قیمت کے حوالے سے مہم چلا رہی ہے، کا کہنا ہے کہ کوکو کی پیداوار کرنے والے افراد کو جو قیمت ادا کی جاتی ہے یہ بھی اس صنعت کے مسائل بڑھانے کی بڑی وجہ ہے۔
اس غیر سرکاری تنظیم میں انسانی حقوق کے مشیر ایولن بان نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کوکو کی کاشت کرنے والے کسان بہت غربت کی زندگی گزارتے ہیں اور اس کا چائلڈ لیبر اور درختوں کی کٹائی جیسے مسئائل سے براہ راست تعلق ہے۔
سنہ 2020 میں منصفانہ تجارت کے ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ ایک کوکو کاشت کرنے والا کسان اوسط 0.90 ڈالر یومیہ کماتا ہے۔ جو کہ عالمی بینک کے انتہائی غربت کے معیار 1.90 ڈالر یومیہ آمدن سے بھی نیچے ہیں۔
ڈاکٹر مائیکل کا کہنا ہے کہ 'غربت اور مشقت کروانے کے وہ طریقہ جو یہاں سے شروع ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ کوکو کی کسانوں کو کم قیمت ادا کرنا ہے۔'
کوکو کسانوں اور اس میں کام کرنے والے افراد کے حقوق کے لے آواز اٹھانے والے انکوٹا اور فیئر ٹریڈ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کے حل کے لیے کوکو کے بیجوں کی قیمت کو مارکیٹ میں بڑھانا پڑے گا۔ اور اس ضمن میں چند چاکلیٹ کمپنیوں نے عوامی سطح پر کوکو کے کسانوں کو زیادہ ادائیگی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اس کی ایک مثال ٹونی کی چوکولونی ہے، یہ ایک ڈچ چاکلیٹ کمپنی ہے جس نے چاکلیٹ کی صنعت میں جبری مشقت کے خلاف ایک مہم کے طور پر کام شروع کیا تھا لیکن اب وہ ملک کی سب سے زیادہ بڑی چاکلیٹ بیچنے والی کمپنی ہے۔
برطانیہ میں اس کمپنی نے منیجنگ ڈائریکٹر بین گرین سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہمارا اس صنعت میں آنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ ہم بچوں سے مشقت اور غلامی کے بغیر چاکلیٹ بنائیں۔ اور کوکو کے کسانوں کو مناسب دام دینا اس کا ایک بنیادی اصول تھا۔‘
مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صارفین کو میٹھا کھانے کے لیے زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ انکوٹا کے ایک اندازے کے مطابق اگر کسانوں کو ان کی کاشت کے عوض مناسب دام دیے جائیں تو ایک سو گرام چاکلیٹ کی قیمت میں صرف 20 پیسے کا اضافہ ہو گا۔
تنظیم کے عہدیدار بان کہتے ہیں کہ 'یہ کوئی بڑا اضافہ نہیں ہے لیکن یہ کوکو کے کسانوں کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق ڈال دے گا۔'