آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
چین میں وٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے اور اسلام کے متعلق ویڈیوز دیکھنے کے الزام میں قید کاٹنے والے شخص کی کہانی
’انھوں نے مجھے مکے مارنا شروع کر دیے اور اس وقت تک مارتے رہے جب تک میں بے ہوش نہیں ہو گیا۔ اس کے بعد وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئے۔‘
یہ کہنا ہے قازق نسل سے تعلق رکھنے والے ایرباکت اوتاربے کا جنھیں چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں چینی حکومت نے حراستی مراکز میں قید رکھا تھا۔
انھوں نے لندن کی ایک عدالت میں چین کے حراستی مراکز میں ہونے والے مظالم کے بارے میں گواہی دی ہے۔
ایرباکت مسلمان ہیں اور انھیں سنہ 2017 میں اپنے موبائل فون میں واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے اور اس پر اسلام کے متعلق ویڈیوز دیکھنے کے الزام کے تحت قید کیا گیا تھا۔
چین میں واٹس ایپ استعمال کرنے پر پابندی ہے۔
چین گذشتہ چند برسوں سے سرکاری سطح پر جیلوں کے نیٹ ورک چلانے اور ایک منظم نظام کے ذریعے مسلم اویغورں سمیت دیگر اقلیتی قیدیوں کی 'سوچ کو زبردستی تبدیل' کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چینی حکومت نے مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دور دراز کے مغربی سنکیانگ خطے میں قائم ان مراکز میں رضاکارانہ بنیادوں پر تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔
چین کی صوبے سنکیانگ کی جیل میں قید رہنے والے قازق مسلم ایرباکت نے بی بی سی کی نامہ نگار کیرولین ہاؤلے سے بات کرتے ہوئے دوران قید خود پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بتایا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چین کے ان حراستی مراکز میں ان پر اس قدر تشدد ہوتا تھا کہ کبھی کبھی وہ اس پر موت کو ترجیح دینے کے بارے میں سوچتے تھے۔ 'کبھی کبھی تشدد اتنا تکلیف دہ ہو جاتا کہ میں سوچتا کہ بہتر ہو گا کہ یہ مجھے مار دیں۔'
'پہلی جیل سب سے بری تھی'
چین کی اویغور اور دیگر مسلم آبادی کے لیے قائم تربیتی مراکز سے قبل انھیں 98 دنوں کے لیے ایک جیل میں رکھا گیا۔
وہ وہاں اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'میرے ہاتھوں پر زخموں کے نشان ہتھکڑیوں کے ہیں، قید کے دوران میرے ہاتھوں پر ہتھکڑیاں اور پیروں کو بیڑیوں سے باندھا گیا تھا۔'
انھوں نے بتایا کہ ان بیڑیوں کا جن میں انھیں جکڑا گیا تھا، وزن سات کلو تھا اور انھوں نے اس جیل میں 98 دن گزارے۔
یہ بھی پڑھیے
دوران قید ان پر ہوئے مظالم ان کے ذہن پر آج بھی نقش ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'اب بھی وہ سب چیزیں میرے خواب میں آتی ہیں اور میں ڈر کے نیند سے اٹھ جاتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اب بھی وہاں ہی موجود ہوں۔'
انھوں نے بتایا کہ انھیں ایک بار یہ کہنے پر بھی تشدد کیا گیا کہ وہ بھوکے ہیں۔
دوران قید ان پر ہوئے مظالم کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں ایک 'ٹائیگر چیئر' نامی کرسی تھی جس پر کم از کم سات دن تک باندھ دیا جاتا۔ یہ دورانیہ 15 دن تک بھی بڑھ جاتا تھا۔
'جب ہم اس کی تکلیف برداشت نہیں کر پاتے تھے تو مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے جس پر وہ ہمیں مزید پیٹتے تھے۔'
وہ بتاتے ہیں کہ وہ اسی ٹائیگر چیئر نامی کرسی پر بندھے رہتے اور چینی جیل کے اہلکار انھیں کالے ڈنڈے سے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ ’وہ ہمیں اذیت پہنچانے کے لیے بجلی کے کرنٹ والے ڈنڈے بھی استعمال کرتے اور ہمیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے۔‘
تربیتی مراکز کے حالات
چین کے مغربی صوبے میں ریاستی سطح پر قائم کیے جانے والے حراستی مراکز جنھیں چین کی حکومت تربیتی مراکز قرار دیتی ہے کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایرباکت نے بتایا کہ ہر صبح اپنے کمرے سے باہر آنے کے بعد وہ قطار بناتے اور پھر انھیں کلاس روم میں بھیج دیا جاتا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'ان کلاس رومز میں لوہے کی سلاخیں تھی جو ہمیں اور وہاں موجود ٹیچر کو تقسیم کرتی تھی۔ ہم سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'کبھی کبھی ہمیں چینی زبان کے وہ حروف پڑھائے جاتے تھے جنھیں ہم نے پہلی جماعت میں سیکھا تھا۔'
ان کا کہنا ہے کہ دوران قید وہ نہ چلا سکتے تھے نہ ہی کسی کی مدد کر سکتے تھے۔ لہذا جب تکلیف و درد حد سے گزرتا تھا تو گانا گنگنا لیتے تھے۔
جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ چین کا اس سب کا مقصد کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ چین کا اس سب کا صرف ایک ہی مقصد ہے 'مسلمانوں، اسلام مذہب اور ان کی زبان کا خاتمہ۔'
چین کے حراستی مراکز میں اپنے والدہ سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے نم آنکھوں سے بتایا کہ 'میری والدہ نے وہاں دو مرتبہ مجھ سے ملاقات کی تھی۔ وہ ستر سالہ بزرگ ہیں، میں نے انھیں کبھی سر پر سکارف کے بنا نہیں دیکھا تھا لیکن صرف وہ مواقعے تھے جب میں نے انھیں ننگے سر دیکھا اور ان کے سر کے تمام بال سفید ہو چکے تھے۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہم یہاں کیمپ میں مشکل وقت گزار رہے ہیں تو باہر کے حالات بھی آسان نہیں رہے ہیں۔'
اپنے حراستی کے آخری دنوں میں انھیں حراستی مرکز کی ایک اور عمارت میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ 'اس عمارت میں ہم یونیفارم اور پاجامے سلائی کرتے تھے۔'
ان کا کہنا ہے کہ ان کی رہائی سے قبل انھیں چند ایسے کاغدات پر دستخط کرنا پڑے جس میں ان سے یہ حلف لیا گیا تھا کہ وہ حراستی مراکز کے اندر ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔
ایرباکت تقریباً ان دس لاکھ اویغور ، قازق اور دیگر اقلیتی افراد میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں چین کی حکومت نے سنکیانگ کے حراستی مراکز میں قید رکھا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب اس بارے میں مزید چپ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ان کا فرض ہے کہ چین کے حراستی مراکز میں ہونے والے مظالم سے پردہ اٹھائیں۔
ایرباکت کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے لندن میں چین کے سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اس شخص کے الزامات صرف جھوٹ کا پلندہ ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ چین کی سنکیانگ کے متعلق پالیسی پر الزام کی ایک تازہ مثال اور چین کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی کی ایک کوشش ہے۔'
چینی سفارتخانے کے مطابق 'خطے میں نسلی گروہوں کو تمام سیاسی، معاشی، سماجی اور مذہبی حقوق حاصل ہیں۔'