آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی پہلی مشترکہ بحری مشقیں ایران کے لیے باعث تشویش کیوں؟
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل نے گذشتہ دنوں مشترکہ بحری مشقیں کی ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک ایک ناقابل تصور بات تھی۔
بحیرہ احمر میں پانچ روزہ مشترکہ مشقوں میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے جنگی جہاز شامل تھے، جبکہ اسرائیل کے جنگی بحری جہازوں کو امریکی بحریہ کا تعاون حاصل تھا۔۔ یہ مشقیں گذشتہ بدھ کو شروع ہوئیں اور ان میں کسی مشکوک جہاز پر سوار ہونے، تلاشی لینے اور اسے قبضے میں کرنے کی مشقیں شامل تھیں تاکہ 'نیویگیشن کی آزادی کو یقینی بنانے میں مہارت حاصل کی جا سکے۔'
امریکی بحری افواج کی سینٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ ’ان مشقوں کے نتیجے میں مشقوں میں شریک افواج اور سمندر کی نگرانی کرنے والی فورسز کے درمیان تعاون مضبوط ہو گا۔‘
یہ مشقیں ستمبر 2020 میں عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین ابراہیم معاہدوں پر دستخط کے بعد ممکن ہو سکی ہیں جن کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آئے ہیں۔ اس کے بعد سے اسرائیل اور ان خلیجی ریاستوں کے درمیان سفارتی، فوجی اور انٹیلیجنس کی سطح پر کافی تبادلہ ہوا ہے۔
یہ تمام خلیجی ممالک اور اسرائیل ایران کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے سربراہ نے بحرین کا سرکاری دورہ کیا ہے اور اکتوبر میں متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے کمانڈر بھی اس طرح کے کسی پہلے دورے پر اسرائیل پہنچے تھے۔
ایران نے حال ہی میں آبنائے ہرمز کے مشرق میں اپنی بحری مشقوں کا اعلان کیا ہے۔ اس نے خلیج کے علاقے میں امریکی اور دیگر مغربی بحریہ کی موجودگی پر سخت ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے۔
شاہ کے زمانے میں ایران علاقے میں بڑی علاقائی بحری قوت تھا۔ سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد سے وہ اکثر خلیجی عرب ریاستوں سے امریکی افواج کو نکالنے کا کہہ چکا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ خلیجی سلامتی کا خیال رکھنے کے لیے ان کا فطری ساتھی ہے۔ تاہم ایران کی تجاویز پر کسی بھی خلیجی ملک نے کان نہیں دھرے اور تمام چھ خلیجی عرب ریاستوں میں آج بھی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کو ایران اور اس کی فوج، پاسداران انقلاب، پر شدید تحفظات اور شکوک و شبہات ہیں۔ انھوں نے ایران کو بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ پورے مشرق وسطی میں طاقتور پراکسی ملیشیا کا نیٹ ورک بناتے ہوئے دیکھا ہے جو ان کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
یمن میں سعودی قیادت میں چھ سال سے زیادہ عرصے سے جاری فضائی حملے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ اور ایران نے عراق اور شام دونوں ممالک میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ انھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو اپنی فوجیں بھیج کر تقویت پہنچائی ہے۔ جبکہ عراق میں ملیشیا کو مالی امداد دے کر اور مسلح کر کے اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہے۔
ایران نے بیلسٹک میزائلوں کا ایک زبردست اسلحہ خانہ بھی بنا لیا ہے جو خلیج میں کہیں بھی مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ پاسداران انقلاب کی بحریہ نے تیز رفتار تارپیڈو اور بارودی سرنگیں بچھانے والی کشتیوں کے اپنے بیڑے کو تیزی سے بڑھایا ہے۔
ایران کے بارے میں اسرائیل اور خلیجی عربوں کے تحفظات مشترک ہیں اور اسے ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے زیادہ تشویش ہے۔ واضح رہے کہ پہلے امریکہ اور پھر ایران نے سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) میں طے شدہ وعدوں کو ترک کر دیا تھا۔
اسرائیل کو شبہ ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، جس کی ایران تردید کرتا ہے۔
اسرائیل اور ایران ایک غیر اعلانیہ اور نچلی سطح کے سمندری تنازع میں بھی ملوث رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرہ احمر اور خلیج عمان تک کے سمندری علاقوں میں بحری جہازوں پر پراسرار حملے دیکھے گئے ہیں۔ جولائی میں ایک دھماکہ خیز ڈرون حملے کا الزام ایران پر عائد کیا گیا تھا جس میں عمان کے ساحل سے دور اسرائیل سے منسلک ایک ٹینکر پر ایک برطانوی سکیورٹی گارڈ اور رومانیہ کے عملے کا ایک رکن ہلاک ہو گیا تھا لیکن ایران نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
سعودی عرب تاریخی طور پر مشرق وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیوں کی مذمت کرنے میں سب سے آگے رہا ہے، خاص طور پر سنہ 2015 سے جب سے موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان وزیر دفاع بنے تھے۔
لیکن 14 ستمبر 2019 کو کچھ ایسا ہوا جس نے ریاض میں سعودی سٹریٹجک منصوبہ سازوں کے سارے حساب کتاب کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
صبح صادق سے پہلے کے اندھیرے میں ڈرونز اور میزائلوں کے ایک بیراج نے سعودی عرب کے بقیق اور خریص میں آئل پروسیسنگ کی اہم تنصیبات پر حملہ کیا اور ایک ہی حملے کے نتیجے میں ملک کی تیل کی نصف پیداوار عارضی طور پر معطل ہو گئی۔ یمن کے حوثی باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن میزائل شمال سے داغے گئے تھے اور بعد میں تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گيا کہ انھیں جنوبی عراق میں سرحد کے پار ایرانی پراکسی ملیشیا نے فائر کیا تھا۔
پیغام واضح تھا: اگر ایران چاہے تو وہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے اہم قومی بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، بشمول پانی کو صاف کرنے کے کلیدی پلانٹس، اور ساتھ ہی اقتصادی لائف لائنز کو۔ اس حملے پر سعودی ردعمل خاص طور پر دبا ہوا تھا اور حالیہ مہینوں میں ایران اور سعودی حکام کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران اور ریاض دوستی کرنے والے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ باور کرنا ہے کہ دونوں ممالک کو مستقبل میں کسی بھی تنازع کی صورت میں نقصان اٹھانا ہو گا اور یہ کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اختلافات کے باوجود انھیں خطے میں پرامن طریقے سے رہنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔