لبنان: معاشی بحران میں شدت کے بعد فوج کی عالمی طاقتوں سے مدد کی اپیل

لبنان کی فوج نے عالمی طاقتوں سے مالی امداد کی اپیل کی ہے تاکہ ملک میں جاری معاشی بحران کے باعث ’بھوک اور مشکلات کی شکار‘ فوجیوں کو سہارا مل سکے۔

لبنانی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے سپاہی پریشانی اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں سنہ 2019 سے لے کر اب تک 90 فیصد تک گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے، جس کی وجہ سے فوج کے محکمے کے پاس نہ تو بجٹ ہے اور نہ ہی فوجیوں کو تنخواہیں دینے کے پیسے۔

اس سلسلے میں فرانس نے لبنانی فوج کی امداد کے لیے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا لیکن اس کانفرنس میں پیسوں کے بجائے کھانے پینے کی اشیا، پیٹرول، دواؤں اور سپیئر پارٹس کی اپیل کی گئی۔

لبنانی معاشرہ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر منقسم ہے لیکن فوج ان چند محکموں میں سے ایک ہے جو معاشرے میں یکجہتی اور استحکام کی علامت ہیں۔

لبنان میں فوج کے ادارے کو غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے اور انھیں ملک میں موجود 18 مختلف مذہبی گروہوں اور سیاسی دھڑوں کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔

مغربی طاقتیں لبنانی فوج کو خطے میں موجود طاقتور جنگجو گروہ حزب اللہ کی موجودگی میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بہت اہم تصور کرتی ہیں۔ حزب اللہ کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔

فرانس میں وزارتِ دفاع کے ترجمان نے اس صورتحال کے حوالے سے بیان میں کہا ’لبنانی فوج لبنان میں ایک ستون ہے اور یہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مدد کرنا اس وقت اہم ہے۔‘

فرانس نے جمعرات کو یہ ڈونر کانفرنس لبنان کی فوج کے سربراہ جنرل جوزف عون کی جانب سے مارچ میں جاری کی جانے والی تنبیہ کے پس منظر میں منعقد کی۔ لبنانی فوج کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ان کے فوجی بھی لبنانی عوام کی طرح بھوک اور تکلیف میں ہیں۔

جنرل عون نے لبنان کے سیاسی رہنماؤں پر بھی کھلے عام تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کس سمت میں جا رہے ہیں؟ آپ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘

لبنان میں سیاسی طاقتیں نگراں وزیر اعظم حسن دیاب کے استعفی کے بعد ابھی تک نئی کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی ہیں۔ حسن دیاب گذشتہ برس اگست میں بیروت کی بندرگاہ پر تباہ کن دھماکے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے۔

منگل کو ایک تقریر میں جنرل عون نے کہا کہ ’ہم اپنے اتحادیوں سے مدد طلب کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور میں دنیا کے آخری کونے تک جانے کے لیے تیار ہوں تاکہ فوج اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فرانس کی وزارت دفاع میں موجود ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ لبنانی فوج کو مخصوص چیزوں کی ضرورت ہے جن میں دودھ، آٹا، دوائیں، پیٹرول اور ملٹری آلات کے لیے سپیئر پارٹس شامل ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ نے کہا تھا کہ وہ لبنانی فوج کی اس برس کی مالی امداد میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا اضافہ کر کے اسے 12 کروڑ ڈالر کر دے گا۔

یہ بھی پڑھیے

ورلڈ بینک نے حال ہی میں لبنان کے حوالے سے تنبیہ کی تھی کہ ملک اس وقت زبردست معاشی بحران کا شکار ہے اور ممکن ہے کہ یہ انیسویں صدی کے بعد آنے والے تین بڑے معاشی بحرانوں میں سے ایک ہو۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں لبنان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 20 فیصد تک کمی آئی۔ جبکہ اس برس اس میں مزید نو فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں گذشتہ برس 84 فیصد تک کمی آئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا۔

لبنان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ملک میں موجود محنت کش طبقے کی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔

لبنانی فوج میں ایک عام فوجی ساڑھے 12 لاکھ پاؤنڈ کماتا ہے جو کہ 800 امریکی ڈالر بنتے ہیں تاہم لبنان کی بلیک مارکٹ میں اس کی قدر صرف 80 امریکی ڈالر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فوج کے مورال میں کمی آئی ہے اور کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے مطابق سال کے شروع میں اس کی تعداد میں مزید تین ہزار فوجیوں کی کمی ہوئی اور اب یہ صرف 80 ہزار 874 فوجیوں پر مشتمل ہے۔