بیلاروس: طیارہ ’اغوا‘ کر کے صحافی کی گرفتاری، یورپی یونین کا بیلاروس پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ

یورپی یونین نے اتوار کے روز ایک پرواز کا رُخ موڑ کر صحافی کو گرفتار کیے جانے کے بعد بیلاروس کی فضائی کمپنیوں پر یورپی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

برسلز میں ہونے والی ایک میٹنگ میں 27 ممبر ممالک کے رہنماؤں نے بھی یورپی یونین کی ایئر لائنز کو بیلاروس کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ اس ضمن میں مزید اقتصادی پابندیوں کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 26 سالہ صحافی رومن پروٹاسیوچ یونان سے لتھوانیا کے لیے محو پرواز تھے کہ بم کی اطلاع کے بعد اس پرواز کا رُخ بدل دیا گیا۔

مغربی ممالک نے صحافی کو گرفتار کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے بیلاروس کے اس اقدام کے بعد بیلا روس پر طیارہ اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

بیلاروس کے حکام نے پیر کو مسٹر پروٹاسیوچ کی ویڈیو جاری کی جس میں ایسا لگتا ہے کہ منسک ہوائی اڈے پر نظربند ہونے کے بعد یہ سخت دباؤ کے تحت ریکارڈ کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کلپ میں صحافی نے کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بیلاروس کی ریاست کے جانب سے لگائے جانے والے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔

لیکن کارکنوں نے جن میں ملک کے اہم اپوزیشن لیڈر بھی شامل ہیں، نے اس ویڈیو پر تنقید کی اور کہا کہ پروٹاسیوچ پر غلط کاموں کا اعتراف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بیلاروس کے حکام کے اقدامات کو 'اشتعال انگیز' قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ 'سیاسی اختلاف اور پریس کی آزادی دونوں پر شرمناک حملہ تھے۔'

پروٹاسیوچ کے والد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ ان کے بیٹے پر تشدد کیا جا سکتا ہے۔

دمتری پروٹاسیوچ نے پیر کے روز کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ان کے آبائی ملک میں حکام کے ہاتھوں ممکنہ سلوک سے خوفزدہ ہیں۔

انھوں نے ایک ویڈیو کال میں کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مقابلہ کریں گے۔ ہم اس کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں ، لیکن یہ ممکن ہے کہ اسے پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاسکے۔ ہمیں واقعی اس سے خوف آتا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’ہم واقعی حیران اور پریشان ہیں۔ اس طرح کی بات 21 ویں صدی میں یورپ کے مرکز میں نہیں ہونی چاہیے۔‘

’ہم امید کرتے ہیں کہ یورپی یونین سمیت پوری عالمی برادری حکام پر بے مثال دباؤ ڈالے گی۔ ہمیں امید ہے کہ دباؤ کام آئے گا اور حکام کو احساس ہوگا کہ انہوں نے واقعی ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔‘

دوسری جانب برطانیہ نے بیلاروس کی سرکاری ایئر لائن بیلوایا کے آپریٹنگ اجازت نامے کو معطل کر دیا ہے اور یورپی یونین کے رہنماؤں نے ممبر ممالک سے بھی ایسی ہی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لٹویا نے بیلاروس کے سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا ہے۔

معاملہ شروع کیسے ہوا؟

مغربی ممالک نے بیلاروس کے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے جس میں بیلاروس نے اپنی حدود میں پرواز کرنے والے ایک طیارے کو زبردستی زمین پر اتار کر اس پر سوار ایک حکومت مخالف صحافی کو گرفتار کیا ہے۔

یورپی یونین کے حکام اس حوالے سے اپنے ردِعمل پر بحث کرنے والے ہیں تاہم تنظیم کے سربراہ نے اسے طیارے کی ہائی جیکنگ قرار دیا اور امریکہ نے اسے ایک انتہائی حیران کن اقدام کہا ہے۔

بیلاروس کے حکام نے لوتھوینیا کی جانب رواس طیارے کے خلاف فضائیہ کے لڑاکا طیارے بھیجے اور دعویٰ کیا کہ طیارے پر بم موجود ہے۔

جب طیارہ زمین پر اترا اور مسافروں کو طیارے سے اتار لیا گیا تو مقامی پولیس نے رومان پروٹاسیوچ نامی صحافی کو حراست میں لے لیا۔

26 برس کے رومان پروٹاسیوچ رائن ایئر کی پرواز پر یونان کے دارالحکومت ایتھنز سے لتھوینیا کے شہر ولنیئس جا رہے تھے جب بیلاروس کی حدود میں پرواز کے دوران طیارے کو کہا گیا کہ وہ اپنی منزل تبدیل کر کے بیلاروس کے دارالحکومت منسک پر اترے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ رومان پروٹاسیوچ انتہائی خوفزدہ تھے اور ساتھی مسافروں کو کہہ رہے تھے کہ انھیں سزائے موت کا سامنا ہوگا۔ بیلاروس واحد یورپی ملک ہے جہاں پر ابھی بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔

بیلاروس میں ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر ایلزینڈر لوکاشنکو نے خود اس کارروائی کا حکم دیا تھا۔

طیارہ اپنی اصلی منزل پر مقررہ وقت سے چھ گھنٹے تاخیر سے پہنچا۔

گذشتہ اگست سے صدر لوکاشنکو نے ملک میں تنقیدی آوازوں کو دبانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور متعدد حزبِ مخالف کے لوگ یا تو گرفتار کیے جا چکے ہیں یا پھر ملک چھوڑ گئے ہیں۔

صدر لوکاشنکو سنہ 1994 سے برسرِ اقتدار ہیں۔

تاہم اس واقعے کے بعد یورپی یونین کی جانب سے بیلاروس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور رومان پروٹاسیوچ کی فوری رہائی اور تفصیلی تفتیش کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

پیر کو لیتھوینا کے صدر نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ بیلاروس پر نئی اقتصادی پابندیاں لگائیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات کے بیلاروس کی حکومت پر وسیع تر اثرات ہوں گے۔

یاد رہے کہ صدر لوکاشنکو اور متعدد بیلاروسی سینیئر حکام پر پہلے ہی یورپی یونین کی پابنیاں ہیں جیسے کہ اثاثوں کا منجمد ہونا یا سفری پابندیاں وغیرہ۔

پروٹاسیوچ کو نشانہ کیوں بنایا گیا ہوگا؟

پروٹاسیوچ نیکسٹا کے سابق ایڈیٹر ہیں جو کہ ایک ٹیلی گرام چینل کے ذریعے میڈیا آپریشن ہے۔ سنہ 2019 میں وہ خود ساختہ ملک بدری کے بعد لیتھوینیا منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں سے انھوں نے 2020 کے صدارتی انتخابات کوور کیے جس کے بعد ان پر دہشتگردی اور عوامی امن کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے۔

سنہ 2020 کے انتخابات میں نیکسٹا نے حزب مخالف کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ ان انتخابات میں صدر لوکاشنکو کامیاب ہوگئے تاہم ان انتخابات کی شفافیت پر کافی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ نیکسٹا کا حکومت مخالف کردار ابھی بھی جاری ہے۔

رومان پروٹاسیوچ حکام کی نظروں میں اس وقت آئے تھے جب سنہ 2011 میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے پر انھیں سکول سے نکال دیا گیا تھا۔

اس وقت رومان ایک مختلف ٹیلی گرام چینل کے لیے کام کرتے ہیں جس کا نام بیلا مووا ہے۔ انھوں نے بلاگر ایگور لوسک کی گرفتاری کے بعد ان کی جگہ اپنی تحریریں شائع کرنی شروع کر دی تھیں۔

وہ ایتھنز میں ایک اقتصادی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے جہاں پر سنہ 2020 کے انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کرنے والی حزب مخالف کی رہنما سویت لاناٹیخانووسکیا بھی موجود تھیں۔ وہ بھی اب لیتھوینا میں مقیم ہیں۔