افغان امن عمل: امریکی فوجیوں کی 11 ستمبر تک واپسی، طالبان کی مذاکراتی اجلاس میں شرکت غیر ملکی افواج کے انخلا سے مشروط

US troops training the Afghan Army 215th Corp in Helmand, July 2016

امریکی حکام نے میڈیا کو بتایا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اعلان کرنے والے ہیں کہ امریکی فوجی رواں برس 11 ستمبر تک افغانستان سے چلے جائیں گے۔

گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدے کے مطابق انخلا کے لیے طے کی گئی مئی کی تاریخ میں اب تاخیر ہو جائے گی۔ انخلا اب سنہ 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے 20 برس مکمل ہونے پر ہو گا۔

اس سے پہلے امریکی صدر بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ صدر بائیڈن کی جانب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان بدھ کے روز متوقع ہے۔

طالبان نے امریکی فوجیوں کے انخلا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ترکی میں ہونے والے اجلاس میں اس وقت تک شرکت نہیں کریں گے جب تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ نہیں جاتیں۔

قطر میں طالبان دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’جب تک تمام غیر ملکی افواج مکمل طور پر ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتیں تب تک (ہم) افعانستان سے متعلق کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔‘

توقع ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن ہونے والے فیصلے سے بدھ کے روز بیلجئیم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو اتحادیوں کو آگاہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

خیال رہے کہ فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو امریکہ اور اس کے تمام اتحادی فوجی 14 مہینوں میں انخلا کر جائیں گے۔ ان وعدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان اپنے زیرِ قبضہ علاقے القاعدہ یا کسی بھی اور شدت پسند گروہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور قومی امن مذاکرات کو جاری رکھیں گے۔

طالبان کے ترجمان کی ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہ@IeaOffice

،تصویر کا کیپشنقطر میں طالبان دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ' جب تک تمام غیر ملکی افواج مکمل طور پر ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتیں تب تک (ہم) افعانستان سے متعلق کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے‘

اگرچہ طالبان نے تاریحی معاہدے کے تحت بین الاقوامی فوجیوں پر حملے بند کر دیے تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔

گذشتہ ماہ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر یکم مئی تک تمام غیر ملکی افواج نے ملک سے انخلا نہ کیا تو ان کے خلاف حملے دوبارہ شروع کر دیے جائیں گے۔ جبکہ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کو خبردار کر دیا گیا ہے اگر انھوں نے انخلا کے دوران امریکی فوجیوں پر کوئی حملہ کیا تو انھیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب بھی اس کے تقریباً 25 ہزار فوجی ہیں۔

لائن

کیا یہ طالبان کے لیے فائندہ مند ہوگا؟

بی بی سی پاکستان کے نامہ نگار سکندر کرمانی کا تجزیہ

افغان حکام اس اعلان کو طالبان کے لیے فائدہ مند تصور کریں گے، چاہے طالبان کا اصرار ہے کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن کا پاس رکھا جائے۔ کچھ لوگوں کو امید تھی کہ بائیڈن انتظامیہ امن عمل کے لیے کوئی مشروط راہ نکالے گی تاہم اس کو واضح طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی سست روی کو دیکھتے ہویے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے قبل کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہے۔ اس ماہ کے آخر میں استنبول میں کانفرنس میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔

افغان طالبان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنافعان طالبان کا وفد گذشتہ ماہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں افعانستان میں قیام امن پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے

ممکن ہے کہ عالمی سطح پر تسمیل کیے جانے کی طالبان کی چاہ انھیں سنجھوتہ کرنے پر مجبور کر دے۔ تاہم بہت سے ماہرین اس حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہیں اور انھیں خوف ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان امریکی فوجیوں کے انخلا کا انتظار کریں اور پھر مکمل جنگی کامیابی یا کم از کم غلبہ پانے کی کوشش کریں۔

افغان انٹیلیجنس حکام کا اندرونی جائزہ یہ کہنا ہے کہ افغان حکومت بین الاقوامی مدد کے بغیر بھی کئی سالوں تک طالبان کو روکے رکھ سکتی ہے۔ مگر اس میں ایک اور خونی جنگ چھڑنے کا امکان ہے۔

لائن

اس طرح کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر غیر ملکی فوجی قوتیں بغیر کسی دیرپا معاہدے کے افغانستان سے نکل گیئں تو طالبان اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔

2001 میں شروع ہونے والی امریکی تاریخ کی طویل ترین اس جنگ میں امریکہ نے کھربوں ڈالر اور 2000 سے زیادہ فوجی گنوائے ہیں۔