ڈونلڈ ٹرمپ کی مواخذے میں بریت: امریکی سینیٹ کے فیصلے کے دوررس اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

ٹرمپ مواخذہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکی ایوان نمائندگان میں سات ریبپلکن سینٹرز سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی اور ہجوم کو بغاوت پر اکسانے کے الزام پر مواخذے کے مقدمے سے بری ہو گئے ہیں۔

امریکی سینیٹ ان پر الزامات ثابت کرنے اور ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرنے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان میں سات ریبپلکن سینیٹرز سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ صدر ٹرمپ کو سزا دلوانے کے لیے کل 67 ووٹوں کی ضرورت تھی تاہم دس ووٹوں کی کمی سے انھیں الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔

اپنی بریت کے بعد، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس مقدمے کی مذمت کی اور کہا کہ ' یہ تاریخ کی سب سے بڑی الزام تراشی ہے۔'

واضح رہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کا دوسرا مقدمہ تھا۔ اگر انھیں سزا مل جاتی تو امریکی سینیٹ انھیں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے ووٹ دے سکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

سابق صدر ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شمالی امریکہ کے نامہ نگار انتھونی زورچر کا تجزیہ

امریکہ کے سینیٹ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی محض پانچ روز بعد ختم ہوگئی۔ اکثر ماہرین نے یہ پیشگوئی کہ تھی کہ یہ فیصلہ سابق صدر ٹرمپ کے حق میں آئے گا اور ان پر کیپیٹل ہِل مظاہرین کو گذشتہ ماہ تشدد پر اکسانے کا الزام ثابت نہیں ہوگا۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔

امریکی تاریخ میں چار مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے۔ یہ ان میں سے سب سے مختصر کارروائی رہی ہے۔

شاید اس کارروائی کو مکمل ہونے میں اتنا وقت نہیں لگا لیکن اس کے اثرات دیر پا ہوسکتے ہیں۔ سابق صدر کے خلاف اس مقدمے نے ایک مثال قائم کی ہے۔ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ آئندہ سیاسی مقابلوں کے لیے میدان سج چکا ہے۔

ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس فیصلے سے کسے فائدہ ہوا اور کسے نقصان۔

ڈونلڈ ٹرمپ

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک مرتبہ پھر اپنے رپبلکن دوستوں کی وجہ سے ٹرمپ سینیٹ میں بری ہوئے۔ جماعت کے اکثر اراکین ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سات ربپلکن رہنماؤں سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ صدر ٹرمپ کو سزا دلوانے کے لیے کُل 67 ووٹوں (دو تہائی اکثریت) کی ضرورت تھی تاہم دس ووٹوں کی کمی سے انھیں الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ٹرمپ کی فتح ہے۔ وہ سنہ 2024 میں دوبارہ صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں، اگر وہ چاہیں۔ انھیں اب بھی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں رپبلکن اراکین نے مواخذے کی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے والے رپبلکنز کو سخت تنقید اور بعض جگہ تحریری نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

ایک بیان میں سابق صدرنے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا، ڈیموکریٹ جماعت پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ان کی سیاسی تحریک کی ابتدا ہے۔

لیکن ٹرمپ اور ان کی تحریک کو مواخذے کی کارروائی کے دوران انھیں نقصان بھی پہنچا۔ استغاثہ نے نئی ویڈیوز چلائیں جن میں 'میک امریکہ گریٹ اگین' والی ٹوپیاں اور ٹرمپ کے جھنڈے تھامے لوگ کیپیٹل ہِل پر دھاوا بول رہے ہیں۔

یہ تصاویر ہمیشہ کے لیے ٹرمپ سے جوڑی جائیں گی۔ ان کی ہر ریلی کے دوران لوگ ان فسادات کو یاد کریں گے۔ رپبلکن جماعت میں شاید انھیں اس کا زیادہ نقصان نہ ہو لیکن آزاد ووٹر اور اعتدال پسند افراد یہ سب بھولنے والے نہیں۔

سینیٹ کے رپبلکنز

سینیٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک سال قبل صرف یوٹاہ کے رپبلکن سینیٹر مِٹ رومنی نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن مواخذے کی اس کارروائی میں ٹرمپ کے خلاف چھ رپبلکن سینیٹرز نے ووٹ دیے۔

یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں۔ ان میں سے تین سینیٹرز سوزن کالنز، بین سیس اور بِل کیسیڈی دوبارہ منتخب ہوچکے ہیں اور اگلے چھ سال تک انھیں ووٹرز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان میں سے دو سینیٹر عنقریب ریٹائر ہونے والے ہیں۔

یہاں یہ بات نمایاں رہی کہ رپبلکن سینیٹرز کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ووٹ سے ان کے ووٹر ناراض ہوسکتے ہیں جو یہ سمجھیں گے کہ سینیٹرز نے ٹرمپ کو دھوکہ دیا۔

ایسی ریاستیں جہاں رپبلکن پارٹی کی حمایت زیادہ ہے وہاں انتخابات میں کسی ساتھی رپبلکن امیدوار سے مقاملہ ڈیموکریٹ پارٹی سے زیادہ بڑا خطرا ہے۔

کڑے مقابلے والی ریاستوں فلوریڈا، وسکانسن اور آئیووا میں آئندہ سال رپبلکن سینیٹرز کو دوبارہ منتخب ہونا ہوگا۔

عام انتخاب کے دوران ان کے ڈیموکریٹ حریف سینیٹ میں ان کے ٹرمپ مخالف ووٹ کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم ابھی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح کے اشتہارات چلائے جائیں گے جن میں کیپیٹل ہل حملے کی ویڈیو دکھائی جائے گی۔

لیکن ٹرمپ کے اگلے قدم پر کافی کچھ منحصر ہے۔ کیا وہ دوبارہ امریکی سیاست میں آئیں گے، مواخذے کی کارروائیوں سے متعلق کیا اگلے انتخاب میں وہ اپنے حمایتیوں اور ناقدین سے مخاطب ہوں گے؟

ہم سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے کس چیز کے زیادہ امکانات ہیں۔

مِچ میکونل

امریکہ

،تصویر کا ذریعہHandout

ووٹ ڈالنے سے قبل ہر رپبلکن سینیٹر نے سیاسی طور پر حساب کتاب کیا ہوگا۔ انھوں نے دیکھا ہوگا کہ عام انتخاب کے لیے اپنے ووٹرز کی سنی جائے یا رپبلکن پارٹی کی۔ سینیٹ میں ایک واقعہ کافی ڈرامائی رہا۔

کینٹکی کے رپبلکن سینیٹر میچ میکونل نےچھ جنوری کے واقعے کے بعد سے ٹرمپ پر کافی تنقید کی ہے۔ مقدمے کی کارروائی تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا فیصلہ کریں گے۔

سنیچر کو انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ ٹرمپ کو بری کرنے کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔

سینیٹ کے فیصلے کے بعد انھوں نے وضاحت کی کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ انھوں نے ٹرمپ کے رویے کی مذمت کی اور کہا کہ ٹرمپ نے اپنی 'ذمہ داریوں سے ذلت آمیز غفلت' دکھائی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'صدر ٹرمپ اس دن کے واقعات کو اکسانے کے لیے ظاہری اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں۔'

تاہم انھوں نے ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کیا کیونکہ ان کے مطابق سابق صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ممکن ہے تو کانگریس کسی بھی عام شہری کا مواخذہ منظور کر کے انھیں سرکاری عہدے پر تعینات ہونے سے روک سکتا ہے۔

میکونل کے ناقدین یہ کہیں گے کہ انھوں نے اصولی موقف کی جگہ درمیانی راستہ چنا ہے۔ لیکن ان کے اس ووٹ اور موقف کی بنا پر انھیں سینیٹ میں رپبلکنز کی اکثریت تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکے گی۔ کانگریس میں کسی رہنما کے لیے یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔

میکونل اپنے محفوظ راستے پر چل رہے ہیں لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آیا ان کے ساتھی رپبلکن ان کے ووٹ سے مطمئن ہوتے ہیں یا ان کے الفاظ سے غیر مطمئن۔

ڈیموکریٹس

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رواں ہفتے سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوران ایوان کے اراکین کو خاصی توجہ ملی ہے۔

نو رکنی ٹیم نے مقدمے کے پانچ روز کے دوران چھ جنوری سے متعلق کئی ویڈیوز دکھائیں اور نقشے کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کیسے کیپیٹل ہل میں مشتعل افراد داخل ہوئے اور وہ نائب صدر مائیک پینس کے قریب پہنچ چکے تھے۔

لیڈ مینیجر جیمی ریسکن کو یاد رکھا جائے گا جب انھوں نے اپنی 24 سالہ بیٹی سے ہونے والی گفتگو کا تذکرہ کیا۔ اس وقت انھیں عمارت سے نکالا جا رہا تھا۔

انھوں نے اپنی تقاریر کے دوران ایک جھلک اپنے ماضی کی دکھائی جب وہ امریکی یونیورسٹی میں آئینی قانون کے پروفیسر ہوا کرتے تھے۔

اسی طرح جو نگوس اور سٹیسی پلیسکن نے بھی اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔

جو بائیڈن

جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

موجود صدر کی جانب سے اس مواخذے کی کارروائی پر حکمت عملی سادہ تھی: ان معاملات کو اپنے سے دور رکھنا۔

وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے مطابق وہ اس کارروائی کا غور سے مشاہدہ نہیں کر رہے تھے اور ہر سماعت کے دوران وہ کورونا وائرس سے متعلق کسی ضروری تقریب میں شریک رہے۔

انھوں نے کیپیٹل ہل کی ویڈیو پر ضرور بیان دیا۔ یہ وہ تصاویر تھیں جنھیں چینلز پر بار بار چلایا جا رہا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ نئے صدر کی سیاسی حکمت عملی کورونا وائرس سے خلاف ہونے والی کامیابی، معاشی استحکام اور امریکہ کے دوسرے مسائل کے حل پر منحصر ہے۔ وہ اس لیے ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کو اپنے مستقبل کے لیے اہم نہیں سمجھتے۔

نئے قوانین کی راہ میں یہ مقدمہ زیادہ رکاوٹوں کا باعث نہیں بنا اور بائیڈن کی پیشرفت جاری ہے۔ سینیٹ نے صرف تین روز گنوائے۔

کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے نئے مجوزہ قانون کو پیش کرنے کے لیے تاخیر ضرور ہوئی۔ اس پر گذشتہ ہفتے سے کام کیا جا رہا تھا۔

مقدمے کے اختتام کے ساتھ سینیٹ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اٹارنی جنرل اور دیگر تعیناتیوں کی منظوری دے سکے گا۔

بائیڈن اور ان کی ٹیم اس پیشرفت سے خوش ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کے حامی یہ سمجھیں کہ بائیڈن کی زیادہ توجہ انتظامی امور پر ہونے کی وجہ سے ٹرمپ کا مکمل احتساب نہیں ہوسکا۔ مثال کے طور پر تیز رفتار ٹرائل کی وجہ سے گواہان کو نہیں بلایا جاسکا جس کی سیاسی قیمت دینا پڑ سکتی ہے۔

آئندہ سیاسی مقابلوں کے لیے بائیڈن کو ڈیموکریٹ پارٹی میں اتحاد لانا ہوگا۔ اگر مواخذے سے متعلق اب کوئی دوسری رائے ابھرتی ہے تو اس سے پارٹی تقسیم ہوسکتی ہے۔

ٹرمپ کے وکلا

امرحیکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنٹرمپ کی وکلا کی ٹیم کے سربراہ بروس کاسٹر

ٹرمپ کی وکلا کی ٹیم کے سربراہ بروس کاسٹر اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ 'بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟' انھوں نے ابتدا میں ایسی دلائل پیش کیے جن سے شاید کچھ رپبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینا درست سمجھا۔

یہ کہا جانے لگا کہ ٹرمپ ان کے دلائل سے خوش نہیں۔ اس کے بعد کاسٹر غائب ہوگئے اور انھیں مائیکل وان ڈیر وین نے بدلا جو ماضی میں ہتک عزت کے مقدمات بھی لڑ چکے ہیں۔

انھوں نے سابق صدر کی اپوزیشن پر تنقید کو قانونی زبان میں پیش کیا اور اس حوالے سے انھوں نے بہتر دلائل دیے۔ سینیٹر برنی سینڈرز کے سوال پر بھی ان کے جواب نے کافی ڈیموکریٹس کو ناخوش کیا۔

انھوں نے اپنی کارکردگی سے طویل مقدمے کے امکانات ہو کم کیا اور اس کارروائی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

وکلا کا کامیابی کا انحصار ان کی شکست یا فتح پر ہوتا ہے۔ ادھر ٹرمپ کے وکلا نے اپنے کلائنٹ کو کامیابی سے بچا لیا ہے۔

سنیچر کو کیا ہوا؟

ٹرمپ مواخذہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے مقدمے کی کارروائی میں ووٹنگ کے عمل کے بعد کانگریس میں ریپبلکن کے سنیئر رکن سینیٹر مچ میک کونل کا کہنا تھا کہ 'مسٹر ٹرمپ کیپیٹل پر حملے کے لیے 'ذمہ دار' تھے۔' انھوں نے اسے ایک'شرمناک اور رسوائی والی پامالی' قرار دیا ۔

اس سے قبل انھوں نے ان کی سزا کے خلاف یہ کہتے ہوئے ووٹ دیا تھا کہ یہ غیر آئینی ہے اور ٹرمپ اب صدر نہیں رہے ہیں۔ میک کونل صدر ٹرمپ کے 20 جنوری کو عہدہ چھوڑنے کے تک ان کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کرنے میں معاون تھے۔ تاہم انھوں نے خبردار کیا تھا کہ ٹرمپ کو تاحال عدالت میں قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ' وہ ابھی بھی کسی چیز سے بچے نہیں ہیں، ہمارے ملک میں انصاف و عدالت کا نظام موجود ہے۔ ہماری ملک میں دیوانی مقدمات کا نظام ہے اور سابقہ صدور اس میں سے کسی کے لیے جوابدہ ہونے سے مستثیٰ نہیں ہیں۔'

اپنے اختتامی بیانات میں، ڈیموکریٹک ایوان نمائندگان کے سینیٹ کے ذریعہ اس عمل کی نگرانی کے لیے مقرر قانون سازوں نے متنبہ کیا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کو بری کردینا خطرناک ہوگا۔

نمائندہ جو نیگوس کا کہنا تھا کہ ' اس سے زیادہ خراب صورتحال نہیں ہو سکتی کیونکہ سخت اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھ جنوری کو جو ہوا وہ دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔'

نمائندے میڈیلین ڈین نے کہا ،'تاریخ نے ہمیں ڈھونڈ لیا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ دوسری طرح سے کیوں نہیں دیکھتے ہیں۔'

تاہم ، مسٹر ٹرمپ کے وکیل مائیکل وین ڈیر وین نے مواخذے کی کارروائی کو 'شو ٹرائل' قرار دیا اور کہا کہ ڈیموکریٹس مسٹر ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کے لیے'جنونی' تھے۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ مواخذہ شروع سے آخر تک ایک فضول ڈرامہ رہا ہے۔یہ سارا تماشہ حزب اختلاف کی پارٹیکی طرف سے مسٹر ٹرمپ کے خلاف دیرینہ سیاسی انتقامی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں رہا۔'

مسٹر ٹرمپ نے خود کہا کہ 'کوئی بھی صدر اس سے پہلے کبھی اس سے نہیں گزرا' اور یہ کہ 'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی تحریک ابھی شروع ہوئی ہے۔'

امریکی سینیٹ نے گواہوں کو کیوں نہیں سنا؟

امریکی سینیٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سینیٹرز نے ابتدا میں ذاتی گواہی کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس سے سنیچر کو ممکنہ فیصلے میں تاخیر ہو سکتی تھی۔ لیکن کسی بھی قسم کی تاخیر سے بچنے کے لیے ہنگامی مشاورت کے بعد انھوں نے اپنے فیصلے کو تبدیل کر کے صرف تحریری بیانات داخل کروانے کا کہا۔

فیصلے میں یہ تبدیلی سابق امریکی صدر اور ایک اعلیٰ ریپبلکن عہدیدار کیون میک کارتھی کے درمیان ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والی فون کال پر مباحثے کے بعد ہوا۔

امریکی ایوان نمائندگان کی ایک ریپبلکن رکن، جیم ہیریرا بیوٹلر کا کہنا تھا کہ مسٹر میک کارتھی نے اس دن انھیں اس فون کال کے بارے میں بتایا تھا۔

انھوں نے کہا کہ مسٹر میک کارتھی نے سابق صدر ٹرمپ کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روکنے کی التجا کی تھی ، لیکن صدر نے غلط طور پر بائیں بازو کے کارکنوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جنھیں 'اینٹیفا' کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مسٹر میک کارتھی نے اس کی تردید کی اور صدر کو بتایا کہ یہ ٹرمپ کے حامی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ' میک کارتھی کے مطابق اس وقت ہی صدر (ٹرمپ) نے کہا: 'ٹھیک ہے ، کیون ، میرا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ کی نسبت انتخابات سے زیادہ پریشان ہیں۔'

اس کی بجائے ، کانگریسی خاتون رکن کے بیان کو تحریری ثبوت کے طور پر جمع کیا گیا۔